Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 178
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِهِمْ١ؕ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ
وَلَا : اور نہ يَحْسَبَنَّ : ہرگز نہ گمان کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا اَنَّمَا : یہ کہ نُمْلِيْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں لَھُمْ : انہیں خَيْرٌ : بہتر لِّاَنْفُسِھِمْ : ان کے لیے اِنَّمَا : درحقیقت نُمْلِيْ : ہم ڈھیل دیتے ہیں لَھُمْ : انہیں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھ جائیں اِثْمًا : گناہ وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّهِيْنٌ : ذلیل کرنے والا
اور منکرین حق اس مہلت کو جو ہم ان کو دیا کرتے ہیں یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارا ڈھیل دینا ان کے حق میں بہتر ہے یہ ڈھیل تو ہم ان کو اس لئے دیتے ہیں تاکہ وہ گناہ میں اور ترقی کر جائیں اور ان کو ذلت آمیز عذاب ہونے والا ہے۔4
4 اور جو منکرین حق کفر میں مبتلا ہیں اور کفر کر رہے ہیں وہ عذاب کی اس مہلت کو جو ہم نے ان کو دے رکھی ہے یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا ان کو عذاب سے یہ مہلت دینا ان کے حق میں کچھ بہتر اور مفید ہے۔ یہ ڈھیل تو بس ہم ان کو اس لئے دے رہے ہیں تاکہ وہ گناہ میں اور ترقی کر جائیں اور کفر میں اور بڑھ جائیں کیونکہ جتنی عمر زیادہ ہوگی کفر اور افعال یہ زیادہ ہوں گے اور آخرت میں ان کو توہین آمیز اور ذلیل و رسوا کن عذاب ہوگا۔ (تیسیر) کافروں کے ظاہری عیش اور عزت و غلبہ کی حقیقت ظاہر فرمائی اور یہ بتایا کہ دنیا میں مجرم کو فوری عذاب نہ آنا اور اس کی گرفت میں جلدی نہ کرنا کچھ اس کے حق میں اچھا نہیں ہے اور ان راہ گم کردہ لوگوں کا یہ خیال کرنا کہ دنیوی عیش اور کثرت مال و جاہ اور عارضی فتح اور کامرانی ان کے حق میں کوئی خیر ہے نہیں یہ تو ایک موقع دینا ہے پوری طرح عذاب دینے کا ۔ جس طرح قرآن کریم میں اور جگہ بھی فرمایا ایحسبون انما نمد ھوبہ من مال و بنین نسارع لھم فی الخیرات۔ یعنی کیا یہ کافر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو ان کو مال میں اور بیٹوں میں بڑھا رہے ہیں تو کوئی ان کے ساتھ بھلائی میں جلدی کر رہے ہی۔ غرض اس قسم کی آیات کا مطلب یہ ہے کہ یہ امہال سبب ہے ۔ آئندہ عقوبت اور بھرپور عذاب کا لیکن کافر اسی امہال کو جو سبب ہے عقوبت فی المآل کا سبب قرار دے لیتا ہے از دیا واثم کا کیونکہ وہ اس امہال کو آئندہ عقوبت کا سبب ہی نہیں سمجھتا اس لئے گناہ زیادہ کرتا ہے یا اس بنا پر کہ اس کی طبیعت کا مقتضا ہی یہ ہے کہ جتنا اس کو موقع ملے گا وہ گناہ ہی کرے گا ۔ لہٰذا امہال اصل میں تو سبب ہے عقوبت کا لیکن کافر نے اس سبب کے سبب کو جو ازد یا اثم ہے اختیار کر رکھا ہے۔ اس لئے حضرت حق نے سبب کے سبب کو قائم مقام سبب کے بیان فرمایا اور یہ انتہائی بلاغت ہے ورنہ از یا داثم سبب ہے امہال کا اور امہال سبب ہے عقوبت فی المال کا اسی لئے اہل سنت نے لیزدادوا کے لام کو علت کا لام قرار دیا ہے بخلاف معتزلہ کے انہوں نے اس لام کو عاقبت کہا ہے۔ فقیر نے جو عرض کیا ہے اس سے معتزلہ کی توجیہ کا بطلان ظاہر ہے ۔ مقاتل نے اس آیت کا شان نزول مشرکین مکہ کے حق میں بتایا ہے۔ عطا نے کہا قریضہ اور نفیر کے یہودیوں کی عیش پسندی کے سلسلے میں اس کا نزول ہوا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا لوگوں میں سے کونسا آدمی بہتر ہے آپ نے فرمایا جس کی عمر طویل ہو اور اس کے عمل اچھے ہوں پھر پوچھا آدمیوں میں برا آدمی کون ہے آپ نے فرمایا جس کی عمر طویل ہو اور اس کے عمل برے ہوں اس روایت کو احمد۔ ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ بیہقی نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے قیامت میں ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا ساٹھ برس والے کہاں ہیں۔ ابن عباس نے کہا یہی وہ عمر ہے جس کو قرآن کریم نے کہا ہے۔ اولم نعمرکم مایتذکر فیہ من تذکر وجائکم النذیر آیت میں جو لفظ خیر آیا ہے وہ تفصیل کے لیے نہیں ہے اور اگر تفصیل کے لئے ہو تو یہ مطلب ہوگا کہ کافر چونکہ امہال کو بہت بہتر سمجھتے تھے اس لئے اسم تفضیل لائے اس آیت میں کافروں کے غلط نظریہ کا جواب تھا کیونکہ وہ اس امہال سے استدلال کرتے تھے کہ اگر ہم برے ہیں اور خدا کی مرضی کے خلاف کام کررہے ہیں تو وہ ہم کو عذاب کیوں نہیں کرتا اور ہماری گرفت کیوں نہیں ہوتی۔ اب آگے مسلمانوں پر جو مصائب و آلام آتے ہیں جیسے غزوئہ احد میں ہوا اس کی بعض حکمتیں بیان کرتے ہیں تاکہ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو ان پر بلائیں اور مصائب کیوں نازل ہوتے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top