Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 180
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ يَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَبْخَلُوْنَ : بخل کرتے ہیں بِمَآ : میں۔ جو اٰتٰىھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِھٖ : اپنے فضل سے ھُوَ : وہ خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے بَلْ : بلکہ ھُوَ : وہ شَرٌّ : برا لَّھُمْ : انکے لیے سَيُطَوَّقُوْنَ : عنقریب طوق پہنایا جائے گا مَا : جو بَخِلُوْا : انہوں نے بخل کیا بِهٖ : اس میں يَوْمَ : دن الْقِيٰمَةِ : قیامت وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مِيْرَاثُ : وارث السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو خَبِيْرٌ : باخبر
اور جو لوگ اس چیز میں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے بخل کیا کرتے ہیں وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ یہ کام ان کے حق میں کچھ اچھا ہے بلکہ یہ بخل کرنا ان کے لئے یہ بہت برا ہے جس مال پر یہ بخیل لوگ بخل کررہے ہیں عنقریب قیامت کے روز اسی مال کے یہ لوگ طوق بناکر پہنائے جائیں گے اور کل آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لئے ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سب سے باخبر ہے۔2
2 اور وہ لوگ جو ایسی چیز کے خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل و کرم سے عطا فرمائی ہے یہ نہ سمجھیں اور ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ یہ بخل کرنا اور بخل کی روش اختیار کرنا ان کے حق میں کچھ اچھا ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ یہ بخل کرنا ان کے لئے بہت برا ہے کیونکہ قیامت کے دن یہ لوگ اس مال کا طوق بناکر پہنائے جائیں گے جس مال میں انہوں نے بخل کیا تھا یعنی وہی چیز جس میں بخل کیا تھا قیامت کے روز ان کے گلے میں طوق ہوگی اور آسمانوں کی اور زمین کی تمام میراث اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور آخر میں سب آسمان و زمین اور جو کائنات ان کے اندر ہے ان سب کا وارث وہی ہوگا اور تم لوگ جو اعمال کرتے ہو ان سب سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے۔ (تیسیر) ربط کی ایک تقریر تو ہم اوپر عرض کرچکے ہیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اوپر جہاد کا ذکر تھا اور جہاد میں جان دینے کا ثواب فرمایا تھا اسی سلسلے میں بذل مال کا بھی ذکر فرمایا اور بخل کی مذمت فرمائی۔ بما اتا ھم اللہ کا یہ مطلب تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا تقاضا تو یہ تو تھا کہ اس کی راہ میں خوب خرچ کرتے لیکن ان بدبختوں نے الٹا اس کو اپنے بخل کا سبب بنالیا۔ طوق ڈالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ سونے چاندی کا طوق گرم کرکے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ یا آگ کا طوق ان کے گلے میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ان کے مال کو اژد ہے کی شکل عطا کردی جائے گی اور وہ بخیل کے گلے میں لپٹ کر بخیل کے منہ کو اپنے جبڑوں سے چباتا رہے گا اور جب تک میدان حشر قائم رہے گا اور لوگ حساب و کتاب سے فارغ ہوں گے یہ سانپ اس بخیل پر اسی طرح مسلط رہے گا اور یہ سانپ کہے گا۔ انا کنزک انا مالک میں تیرا خزانہ ہوں میں تیرا مال ہوں۔ بعض لوگوں نے اس وعید کو مانعین زکوٰۃ پر حمل کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ ہر قسم کے حقوق واجبہ کی ادائیگی میں بخل کرنے والے مراد ہیں خواہ وہ اپنا نفس ہو یا اپنے اہل و عیال ہوں یا حاجت مند عزیزو اقارب ہوں یا جہاد ہو غرض جن حقوق کا پورا کرنا واجب اور لازم ہے ان سب میں کوتاہی اور بخل کرنے والے شامل ہیں۔ اسی طرح علم کے بخیل اور کتمان حق کرنے والے مال کے بخیل سے بھی بدتر ہیں آخر میں بخلا کی حماقت کا اظہار فرمایا کہ یہ لوگ اتنی بات نہیں سمجھتے کہ سب کی موت کے بعد اس کائنات کا وارث اللہ تعالیٰ ہی ہے یہ سب کچھ اسی کی ملک ہے اور آخر میں وہی رہ جائے گا اور وہی سب کا مالک ہوگا پھر بھی تو جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ اسی کا ہوگا اور اگر زندگی میں اس کی راہ پر خرچ کردو اور حقوق واجبہ ادا کردو تو اجر کے مستحق ہوگے اور اگر آخر میں سب کچھ اس ک پاس رہا تو تم کو ثواب بھی نہیں ملے گا۔ اور یہ جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری سخاوت سے بھی واقف ہے۔ اور تمہارے بخل سے بھی واقف ہے یا یہ مطلب ہے کہ ظاہری اعمال کے ساتھ تمہاری نیت اور تمہارے خلوص سے باخبر ہے لہٰذا جو خرچ کرو خالص نیت سے خرچ کرو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جو کوئی زکوٰۃ نہ دے گا اس کا مال اژدہا بن کر گلے میں ہار پڑے گا اور اس کے گلے چیرے گا اور اللہ وارث ہے آخرتم مرجائو گے اور مال اسی کا ہوگا تم اپنے ہاتھ سے دو تو ثواب پائو۔ (موضح القرآن) ہم نے عرض کیا تھا کہ بعض حضرات نے یہاں بخل سے زکوٰۃ نہ دینے والے مراد لئے ہیں اور جس حدیث میں اژد ہے کا گلے کا ہار بننا اور اونٹ کا کاٹنا اور گائے کا سینگ مارنا وغیرہ کا ذکر آتا ہے اس میں مانعین زکوٰۃ مراد ہیں اس لئے بعض علماء نے آیت کی تفسیر بھی مانعین زکوٰۃ سے کی ہے بعض نے کتمان علم سے کی ہے اور بعض نے محمد ﷺ کی وہ صفات جو توریت میں مذکور ہیں ان کو چھپانے سے کی ہے۔ لیکن ہم عرض چکے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ آیت کو عام رکھا جائے اور جملہ حقوق واجبہ کی ادائیگی میں بخل کرنا مراد لیا جائے۔ اب آگے اس گستاخانہ بات کا جواب ہے جو یہود نے کہی تھی۔ (تسہیل)
Top