Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 182
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۚ
ذٰلِكَ : یہ بِمَا : بدلہ۔ جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَيْسَ : نہیں بِظَلَّامٍ : ظلم کرنے والا لِّلْعَبِيْدِ : بندوں پر
یہ عذاب اس کا بدلہ ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا اور یہ امر یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنیوالا نہیں ہے۔3
3 بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان گستاخ لوگوں کا وہ گستاخانہ قول سن لیا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے قرض حسنہ طلب کرنے پر کہا تھا کہ اللہ محتاج و مفلس ہے اور ہم غنی اور مالدار ہیں ہم ان کی کہی ہوئی بات کو یقیناً ان کے نامۂ اعمال میں لکھ دیں گے اور اسی طرح ان گستاخ لوگوں کا یہ جانتے ہوئے کہ قتل انبیاء ناجائز ہے۔ پھر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو قتل کرنا بھی لکھا جائے گا اور ان کو سزا دیتے وقت ہم کہیں گے کہ لو اب آتش سوزاں کے عذاب کا مزہ چکھو اور اس وقت ہم یہ بھی کہیں گے یہ عذاب ان افعال و اقوال کفری کی پاداش میں ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے تھے اور تم نے اپنے ہاتھوں سمیٹے تھے اور یہ امر یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ (تیسیر) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا کی آیت نازل ہوئی تو یہود نے کہا اے محمد ! تیرا رب فقیر ہوگیا۔ بندوں سے مانگنے لگا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (ابن مردویہ۔ ابن ابی حاتم) دوسرا لفظ ابن عباس کا یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک روز یہود کے بیت المدارس میں تشریف لے گئے وہاں بہت سے یہودی اپنے بہت بڑے عالم اور جرفخاص کے گردجمع ہیں فخاص کے ساتھ ان کا ایک اور بہت بڑا عالم بھی موجود تھا جس کا نام اشیع تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا ! اے فخاص تو اللہ سے ڈر اور اسلام لے آ تو خوب جانتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور تمہارے پاس اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ہیں اور اس کی صفات تم توریت و انجیل میں پاتے ہو۔ اس پر فخاص نے کہا اے ابوبکر ہم کو اللہ کی کوئی احتیاج نہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ ہمارا محتاج ہے ہم اس سے غنی ہیں اگر وہ غنی ہوتا تو ہمارے آگے کیوں عاجزی کرتا اور ہم سے کیوں قرض مانگتا اور تمہارے نبی ہم کو تو سود کھانے سے منع کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ غنی ہوتا تو وہ کیوں سود دیتا اور سود پر قرض لیتا۔ اس گستاخی پر حضرت ابوبکر ؓ نے فخاص کے منہ پر ایک طمانچہ مارا اور فرمایا اگر تمہارے ہمارے مابین معاہدہ نہ ہوتا قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں تجھ کو قتل کردیتا تم ہماری تکذیب کرسکتے ہو تو کرو لیکن اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی نہ کرو۔ اس واقعہ کے بعد فخاص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ابوبکر کی شکایت کی حضرت ابوبکر ؓ کو حضور ﷺ نے طلب کیا اور واقعہ دریافت کیا ابوبکر ؓ نے تمام واقعہ عرض کردیا اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنے سے مجھے غصہ آگیا اور میں نے اس کے طمانہ مارا۔ فخاص نے اپنے الفاظ سے انکار کیا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (ابن ابی حاتم) (1) فخاص کا یہ کہنا اور دوسرے لوگوں کا اس پر خوش ہونا اور فخاص کو منع نہ کرنا اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب لوگوں نے اس گستاخی کا ارتکاب کیا۔ (2) یہود کا یہ قول بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ استہزاء ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حقیقتاً ان کا عقیدہ بھی یہ ہو کہ معاذ اللہ تعالیٰ محتاج ہے اور ہم غنی ہیں اور وہ فقرو افلاس کی وجہ سے بندوں سے قرض مانگتا ہے۔ بہرحال مذاق ہو یا عقیدتاً ہو ہر حالت میں ان کلمات کا کہنا کفر اور آیات قرآنی کی تکذیب ہے۔ اگر عقیدتاً یہ بات کہی ہو تب تو کفر میں شک ہی نہیں اور اگر مذاقاً ہو تب بھی آیات قرآنی کی تکذیب کو مستلزم ہے۔ (3) اور جب یہ بات کافرانہ تھی تو اس پر وعید فرمائی چناچہ یہ فرمانا کہ اللہ تعالیٰ نے سن لیا ہے یہ عتاب کا انداز ہے اور یہ ایسا سننا نہیں ہے جیسا سمع اللہ لمن حمدہ میں ہے اور چونکہ سماع علم بالمسموع کو لازم ہے اس لئے مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ان یہود نے کہا وہ ہم کو معلوم ہے۔ اس لئے نامہ ٔ اعمال میں درج کرنے کا ذکر کیا کہ یہ مجرم پر عادتاً زیادہ حجت ہوتا ہے کہ جو کچھ تو نے کہا وہ تیری رپورٹ میں لکھا ہوا ہے۔ (4) اسی کے ساتھ ان کے قتل انبیاء کی بھی کتابت کا ذکر کیا تاکہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ یہ الفاظ کہہ کر تو انہوں نے نبی آخر الزمان ﷺ کی تکذیب ہی کی ہے یہ تو ایسے نالائق اور بدکردار ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کرچکے ہیں اور یہ جانتے ہوئے انہوں نے نبیوں کو قتل کیا ہے کہ انبیاء کا قتل حرام اور حق کے خلاف ہے۔ (5) اگرچہ انبیاء کو ان کے بڑوں نے قتل کیا تھا لیکن یہ لوگ اپنے بڑوں کی مذمت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے اس فعل پر راضی تھے اس لئے ان کی طرف بھی قتل انبیاء کی نسبت کی گئی۔ (6) اس کے صراحتاً وعید کا اظہار فرمایا کہ ہم جس وقت ان کو سزا دیں گے تو یوں فرمائیں گے خواہ یہ وقت قبر میں ہو یا میدان حشر میں یا جہنم میں ڈالتے وقت۔ (7) سنکتب اور نقول کی نسبت مجازی ہے کیونکہ نامۂ اعمال فرشتے لکھتے ہیں اور اسی طرح عذاب کے وقت فرشتے کہیں گے۔ ذوقوا اور ہوسکتا ہے کہ نقول کی نسبت حقیقی ہو اور سنکتب کی مجازی ہو۔ (8) حریق کے معنی محرق ہیں اور اضافت بیانیہ ہے کیونکہ عذاب دینے والا تو در حقیقت اللہ تعالیٰ سے یا اضافت سبب کی طرف ہے اور سبب کو قائم مقام فاعل کے کردیا ہو جیسا کہ بعض محققین نے اختیار کیا ہے۔ (9) ذوق کے معنی تو اصل میں تھوڑی سی چیز ک منہ میں یا زبان پر رکھ کر چکھنے کے ہیں۔ لیکن اب استعمال میں وسعت ہوگئی ہے اور ہر قسم کے محسوسات کے ادراک پر بولا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مال اکثر کھانے پینے کے کام میں آتا ہے اور یہ لوگ بخیل تھے اس کی مناسبت سے ذوقوا کہا جائے گا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ یہود نے ان اقوال سے انبیاء کے متبعین کو تکلیف پہنچائی اور دکھ دیا اور مسلمانوں کے قلوب کو جلایا اس لئے اس کے عوض اسی جیسا عذاب ان کے لئے مقرر کیا گیا۔ (واللہ اعلم) (01) چونکہ اچھا برا کام کرنے میں ہاتھوں کو زیادہ دخل ہوتا ہے اس لئے بما قدمت ایدیکم فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ سب کچھ تمہارے ہی اعمال کا بدلہ اور تمہارے ہی اعمال کی پاداش ہے ورنہ ہم تو کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ اگر معاذ اللہ وہ ظالم ہوتا تو اس کی یہ صفت بھی کامل ہوتی اور ذرا سا ظلم بھی بہت اور بےاندازہ ہوتا۔ اس لئے مبالغہ کا صیغہ استعمال فرمایا۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) حریق پر فرماتے ہیں یہود نے جو یہ آیت سنی کہ اقرضوا اللہ کہنے لگے اللہ ہم سے قرض مانگتا ہے تو اللہ محتاج ہے اور ہم دولت مند ہیں۔ (موضح القرآن) خلاصہ یہ کہ ہم ان کی باتوں سے واقف ہیں اور آج کی بات سے کیا واقف ہیں ہم تو ان کی اس قتل و خونریزی سے بھی واقف ہیں جو یہ حرام جان کر اپنے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کرتے رہے ہیں جیسے حضرت یحییٰ اور حضرت ذکریا (علیہ السلام) کا واقعہ تو قریب ہی کا ہے۔ اور جب ہم کو ان کے اقوال و افعال معلوم ہیں تو وہ قاعدے کے موافق سب ان کے نامہ ٔ اعمال میں درج کردیئے جاتے ہیں اور ان کی سزا ان کو بھگتنی پڑے گی اور ان سے یہ کہا جائے گا کہ عذاق حریق کا مزہ چکھو چونکہ تم نے مسلمانوں کو بہت طعنے دے دے کر جلایا تھا لہٰذا اب جلانے والے عذاب کی سزا کا مزہ چکھو۔ اور یہ بھی کہہ دیا جائے گا کہ یہ سزا اس کمائی کے عوض ہے جو تم نے خود اپنے ہاتھوں کمائی تھی کیونکہ یہ بات تو مسلم اور یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ظلم وہاں ہے ہی نہیں وہاں تو عدل ہی عدل ہے۔ بداعمالوں کے ساتھ جو ہو وہ عدل اور نیک اعمال والوں کے ساتھ جو ہو وہ فضل۔ اب آگے اس سلسلے میں ان کی افترا پردازی اور ان کے قبائح میں سے ایک اور واقعہ کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top