Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 189
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قادر
اور کل آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے3
3 اے پیغمبر جو لوگ ایسے ہیں کہ اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور اپنی بدکرداری اور بداعمالی پر خوش اور نازاں ہوتے ہیں اور جو نیک کام انہوں نے نہیں کئے ان پر یہ چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے۔ یعنی برے کام کے کرنے پر خوش اور نیک کام کے ترک پر مدح و ثنا کے جویاں سوائے پیغمبر آپ ایسے شخصوں کو ہرگز ہرگز عذاب الٰہی سے نجات یافتہ نہ سمجھیں اور یہ خیال نہ کریں کہ ایسے لوگ عذاب الٰہی سے محفوظ رہیں گے بلکہ ان کو دردناک عذاب ہوگا اور تمام آسمان و زمین کی سلطنت و بادشاہت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خاص ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے اور ہر شئے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (تیسیر) یہود کا عام طریقہ یہ تھا کہ حق کو چھپاتے تھے اور اظہار حق سے گریز کرتے تھے جس کو کرتے تھے یعنی حق کا کتمان اس پر تو خوش ہوتے تھے اور جس کو ترک کر رکھا تھا یعنی حق کا اظہار اس پر چاہتے تھے کہ لوگ ہماری تعریف کریں اور ہم کو سرا ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری کا قول ہے کہ منافقین لڑائی میں جانے سے بچتے تھے اور گھروں میں بیٹھ رہتے تھے اور جب حضور ﷺ سیدانِ جہاد سے واپس تشریف لاتے تو آکر اپنے خلوص کا اظہار کرتے اور قسمیں کھا کھا کر اپنا عذر پیش کرتے اور یہ چاہتے کہ مسلمان ہمارے خلوص اور ایمان کی تعریف کریں۔ مردان نے اپنے چوبدار ابو رافع کو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس بھیج کر دریافت کرایا تھا کہ یہ آیت کن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ یہود کتاب میں تحریف کرتے تھے حق کے خلاف فیصلے کرتے تھے اور ان تمام حرکات شنیعہ پر خوش ہوتے تھے اور نماز روزے کے تارک تھے اور چاہتے تھے کہ ہماری تعریف کی جائے ۔ بہرحال شان نزول کا تعلق اسی قسم کے لوگوں کے ساتھ ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے یہ وعید فرمائی ہے جو برے کام کرکے خوش ہوتے ہیں اور جو اچھا کام نہیں کرتے اس پر مدح سرائی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہ وعید ہے کہ تم ان کو عذاب سے بچنے والا نہ سمجھو ان کو دنیا میں بھی عذاب ہوتا ہے یعنی ان کی فضیحت و رسوائی ہوتی ہے اور آخرت میں تو ان کے لئے دردناک عذاب ہے ہی۔ لاتحسبن میں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے جیسا کہ ہم نے اختیار کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ خطاب عام ہو اگرچہ آیت کا تعلق یہود اور منافقین سے ہے لیکن آیت اپنے مفہوم کی وجہ سے سب کو شامل ہے۔ فرح سے مراد معاصی پر فرح ہے اور حمد سے مراد حمد کی خواہش کرنا اور مدح سرائی کی ہوس کرنا اور اہتمام کرنا ہے۔ رہا کسی نیکی پر مدح کی ہوس اور مدح کا اہتمام یہ بھی شرعاً محمود نہیں ہے۔ باقی طبعاً اگر کسی نیکی پر فرح ہو اور طبعاً کسی کی تعریف محبوب ہو تو یہ گناہ نہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی اچہئے کہ فرح ایسی خوشی کو کہتے ہیں جس میں عجب ادا اور اترانا ہو۔ اس قسم کی خوشی مذموم ہے اچھے کام پر بھی ناپسندیدہ ہے اور برے کام پرتو انتہائی مذموم ہے۔ اسی طرح کام کے نہ کرنے پر مدح کی خواہش یا اچھا کام ترک کرنیپر مدح سرائی کی ہوس یہ بھی مذموم ہے۔ البتہ کوئی اچھا کام کیا اور اس پر کسی نے بغیر خواہش اور بغیر طلب تعریف کردی اور اس قسم کی تعریف و مدح طبعاً محبوب ہوئی تو اس میں مضائقہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے اذا سرتک حسنتک وساع تک سیئتک فانت مؤمن۔ یعنی تیری نیکی تجھ کو مسرور کرے اور تیرا گناہ تجھ کو ملول کرے تو تو مومن ہے۔ یہاں حضور ﷺ نے سرور فرمایا ہے ہم نے جو تقریر اوپر کی ہے اس سے سرور اور فرح کا فرق معلوم ہوگیا ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے نیک کام کرنے اور برے کام کے ترک کرنے پر عجب ہونا اور اترانا اور مدح کی خواہش اور ہوس کرنا اور مدح کو اہم مقصد قرار دینا مذموم ہے۔ البتہ اگر طبعاً مسرت اور خوشی ہو اور کسی مدح کرنے والے کی مدح طبعاً پسند ہو تو مضائقہ نہیں اور برا کام کرنا یا بھلے کام کو ترک کردینا اور اس پر خوش ہونا اور اترانا اور اس پر مدح کی خواہش اور ہوس کرنا اور مدح کو اہم مقصد قرار دینا یہودیت اور منافقت ہے اور اسی کی آیت میں مذمت اور وعید آئی ہے اس پر آخرت کا عذاب یقینی اور دنیا کی سزا کا اندیشہ ہے ورنہ عام طور پر نیک کا کرنے اور برے کام کے ترک پر طبعاً کس کا دل مسرور نہیں ہوتا اور صحیح تعریف اور مدح کس کو نہیں بھاتی۔ یہی مطلب ہے اس جواب کا جو جبرالامت حضرت ابن عباس ؓ نے حاکم مدینہ مردان کو ابو رافع چوبدار کی معرفت دیا تھا اور جو معنی مہ نے آیت کے وعید کے ساتھ کئے یقیناً اس اعتبار سے اس آیت کا کوئی تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے۔ دوسری آیت میں جرم کی سزا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی سلطنت و بادشاہت اور اس کی وسعت وقدرت کا ذکر فرمایا ہے اور یہ قرآن کا ایک خاص داب اور قاعدہ ہے کہ سزا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حکومت وقدرت کا اظہار فرماتا ہے تاکہ مجرم یہ سمجھ لے کہ جس کے قانون کی خلاف ورزی کررہا ہوں اس سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتا کیونکہ اس کی حکومت وقدرت تمام کائنات کو محیط ہے۔ حضرت شاہ صاحب الیم پر کہتے ہیں وہی یہود مسئلے غلط بتاتے اور رشوتیں کھاتے اور پیغمبر کی صفت چھپاتے پھر خوش ہوتے کہ ہم کو کوئی پکڑ نہیں سکتا اور امید رکھتے کہ لوگ ہماری تعریف کریں کہ خوب عالم اور دین دار اور حق پرست ہیں۔ (موضح القرآن) اب آگے حضرت حق تعالیٰ کی قدرت و حکومت کے دلائل ہیں چونکہ اوپر اس کی حکومت کا ذکر آیا ہے اس لئے اس پر دلیل بیان کرتے ہیں نیزجیسا کہ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ اسلام کی حقانیت اور خدا کی توحید پر عقلی اور نقلی شواہد موجود ہیں ان کو دیکھنا چاہئے بلاوجہ پیغمبر سے معجزہ طلب کرنا ایک عامیانہ مطالبہ ہے اور منہ مانگا معجزہ طلب کرنے اور اس کے پورا ہوجانے کے بعد پھر ایمان نہ لانا اور تمام قوم کو ہلاکت میں ڈالنا ایک غلط اقدام ہے۔ اس لئے بجائے لغو اور عامیانہ مطالبات کے حق کو دلیل سے سمجھو اور مانو ! طبرانی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے یہ بھی روایت کی ہے کہ مشرکین نے عناداً نبی کریم ﷺ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ پہاڑ کو سونے کا بنادو اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تسہیل)
Top