Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاخْتِلَافِ : اور آنا جانا الَّيْلِ : رات وَالنَّھَارِ : اور دن لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : عقل والوں کے لیے
بلاشبہ آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں ان لوگوں کے لئے بڑے بڑے دلائل ہیں جو اہل عقل و خرد ہیں۔4
4 یقیناً آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور رات اور دن کے آگے پیچھے یکے بعد دیگر آنے جانے میں اہل عقل و خرد اور صحیح عقل رکھنے والوں کے لئے توحید کے بڑے بڑے دلائل موجود ہیں۔ (تیسیر) اوپر کی آیت میں وللہ ملک السمٰوٰت والارض ایک دعویٰ تھا اس آیت میں اس کی دلیل ہے۔ ہم پارہ سیقول کے چوتھے رکوع میں عرض کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں شکوک و شبہات کرنے والے دو قسم کے ہیں ایک تو وہ جو خدا کے وجود ہی کے منکر ہیں اور دوسرے وہ جو اس کے وجودکو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ کسی نہ کسی کو شریک کردیتے ہیں پہلی قسم کے آدمی کو ملحد یا دہریہ کہتے ہیں۔ اور دوسری قسم کے آدمی کو مشرک کہتے ہیں۔ آج کل یورپ میں بکثرت لوگ ملحد اور اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں اور ایشیا میں بکثرت لوگ مشرک ہیں۔ قرآن عام طور سے توحید کے دلائل بیان کرنے میں ان ہر دو فریق کو سامنے رکھتا ہے اور یہ بات ہم کئی دفعہ عرض کرچکے ہیں کہ جہاں تک انسانوں کے اعتقادیات کا تعلق ہے یہی چند مسائل ہیں جس میں دنیا بھر کے کافر اور مشرک ایک طرف ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ماننے والی اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھنے والے ایک طرف ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا وجود اس کی توحید۔ اس کے بھیجے ہوئے پیغامبر۔ قرآن کریم اور دیگر کتب سماویہ۔ قیامت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا، چونکہ یہ مسائل نہایت اہم ہیں اس لئے قرآن کریم نے اعتقادی مباحث میں ان چیزوں سے بار بار بحث کی ہے اور مختلف عنوانات سے بحث کی ہے چناچہ اس موقعہ پر بھی باتیں سمجھ لیجئے کہ یہ عالم امکان اپنے وجود میں جس طرح ایک واجب الوجود محتاج ہے اسی طرح وہ واجب الوجود ہر ممکن کی شرکت سے بھی پاک ہے۔ واجب الوجود کا تعدد بدیہی طور پر محال ہے۔ سہل اردو میں یہ بات اس طرح سمجھ لیجئے کہ کوئی بد دن صانع کے نہیں ہوا کرتا جب آپ کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو فوراً دہن اس کے بنانے والے کی جانب جاتا ہے خواہ وہ چیز کتنی معمولی ہو یا غیر معمولی ہو جب بددن بنانے والے کے کوئی چیز نہیں بن سکتی تو یہ عالم خود بخود کس طرح بن سکتا ہے۔ لہٰذا کوئی اس کا بنانے والا ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وہی اس کا خالق ہے اور جب وہی سب کائنات کا خالق اور مالک ہے تو پھر اس عالم کے بنانے میں کسی کی شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب کوئی اور تھا ہی نہیں تو شرکت کیسی۔ اس عالم امکان کا ہر ذرہ اپنے وجود اور اپنی ذات میں واجب الوجود کا محتاج ہے اور جو چیز اپنے وجود نبوت میں محتاج ہوگی وہ چیز اپنے جملہ لوازمات میں محتاج ہوگی۔ لہٰذا ایک طرف احتیاج ہی احتیاج اور دوسری طرف وجوب ہی وجوب۔ تو ایسی حالت میں شرکت باری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ رہا واجب الوجود کا تعدد تو انشاء اللہ تعالیٰ بشرط زندگی سورة انبیاء میں عرض کریں گے یا کسی اور موقعہ پر ذکر آجائے گا۔ یہ مسئلہ تو قرآن کریم میں اکثر مقامات پر زیر بحث آئے گا۔ لب کہتے ہیں عقل خالص کو اسی لئے ہم نے اس کا ترجمہ صحیح عقل کیا ہے کیونکہ عقل و خرد کا تو ہر شخص مدعی ہے لیکن ہر شخص کی عقل کو یہ رسائی کہاں کہ وہ وجوب و امکان کو سمجھ سکے اس لئے قرآن عقل سلیم اور عقل صحیح سے اپیل کرتا ہے جوہر قسم کے شوائب واوہام سے پاک ہو۔ صاحبان الباب کی آگے کی آیت میں حالت بیان ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی نبی سے معجزہ مانگنا کیا ضرور جو بات وہ کہتا ہے یعنی توحید اس کی نشانیاں سارے عالم میں نمودار ہیں۔ (موضح القرآن) شاہ صاحب (رح) نے شان نزول کی جانب اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ ہم اوپر کہہ چکے ہیں اب اولی الالباب کے اوصاف بیان ہوتے ہیں۔ (تسہیل)
Top