Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 195
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اَنِّیْ لَاۤ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى١ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۚ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ
فَاسْتَجَابَ : پس قبول کی لَھُمْ : ان کے لیے رَبُّھُمْ : ان کا رب اَنِّىْ : کہ میں لَآ اُضِيْعُ : ضائع نہیں کرتا عَمَلَ : محنت عَامِلٍ : کوئی محنت کرنے والا مِّنْكُمْ : تم میں مِّنْ ذَكَرٍ : مرد سے اَوْ اُنْثٰى : یا عورت بَعْضُكُمْ : تم میں سے مِّنْ بَعْضٍ : سے۔ بعض ( آپس میں) فَالَّذِيْنَ : سو لوگ ھَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی وَاُخْرِجُوْا : اور نکالے گئے مِنْ : سے دِيَارِھِمْ : اپنے شہروں وَاُوْذُوْا : اور ستائے گئے فِيْ سَبِيْلِيْ : میری راہ میں وَقٰتَلُوْا : اور لڑے وَقُتِلُوْا : اور مارے گئے لَاُكَفِّرَنَّ : میں ضرور دور کروں گا عَنْھُمْ : ان سے سَيِّاٰتِھِمْ : ان کی برائیاں وَ : اور لَاُدْخِلَنَّھُمْ : ضرور انہیں داخل کروں گا جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِھَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں ثَوَابًا : ثواب مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس (طرف) وَاللّٰهُ : اور اللہ عِنْدَهٗ : اس کے پاس حُسْنُ : اچھا الثَّوَابِ : ثواب
پھر ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول فرمالی اور ارشاد ہوا کہ میں تم میں سے کسی محنت کرنے والے کی محنت کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ضائع کرنے والا نہیں ہوں تم سب آپس میں ایک دوسرے کی مثل ہو سو جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور انہوں نے جہاد کیا اور شہید کئے گئے تو یقیناً ان کے سب قصور معاف کردوں گا اور ضرور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کی جانب سے ان کو صلہ ملے گا اور بہترین صلہ اللہ ہی کے پاس ہے1
1 پھر ان لوگوں کے پروردگار نے ان کا دعا قبول فرمالی اور ان کی درخواست منظور فرما لی اور یوں فرمایا کہ میرا دستور یہ ہے کہ میں کسی محنت کرنے والے کی محنت کو جو تم میں سے محنت کرنے والا ہو ضائع نہیں کیا کرتا اور جو شخص تم میں سے نیک عمل کرنے والا ہو اس کے نیک عمل کو اکارت اور ضائع نہیں کیا کرتا خواہ وہ نیک کام کرنے والا مرد ہو یا عورت ہو کیونکہ تم سب آپس میں ایک دوسرے کی مثل اور ایک دوسرے کے جزو ہو۔ لہٰذا جن لوگوں نے ہجرت اختیار کی وہ اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں وہ اور مختلف قسم کی تکلیفیں دیئے گئے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے میری راہ میں جہاد بھی کیا اور بہت سے شہید بھی کئے گئے تو میں ضرور ان لوگوں کی تمام خطائیں ان سے دور کردوں گا اور معاف کردوں گا اور یقیناً ان کو ایسے باغات میں داخل کردوں گا جن کے محلات اور سیرگاہوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ان کو یہ صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ملے گا اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس بہترین صلہ ہے۔ استجابت کے معنی ہیں جواب دینا۔ قبول کرلینا، منظور کرلینا کسی پکارنے والے کی پکار پر پہنچ جانا۔ انی لا اضیع۔ بطور سبب کے ہے کہ میرا قاعدہ اور میرا دستور اور میری عادت یہ ہے کہ تم میں سے ایمان لانے کے بعد جو شخص محنت شاقہ برداشت کرے گا اور اعمال نیک بجالاتا رہے گا تو میں اس کے کام کا صلہ اور ثواب ضائع نہیں کروں گا اور چونکہ اس معاملہ ، ثواب اور اجر میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں۔ اس لئے فرمایا بعضکم من بعد یعنی اس معاملہ میں مرد اور عورت سب ایک ہی جیسے ہیں یا یہ مطلب کہ سب کی اصل ایک ہی ہے یا یہ کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے ہے یعنی ایک دوسرے کا جزو ہے۔ (واللہ اعلم) ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں چند اقوال کا لحاظ رکھا ہے ورنہ معنی تو اور بھی بہت سے ہیں پھر اسی دستور پر تفریع ہے اور عمل کرنے والوں کے چند اہم اعمال کی تصریح ہے جو مضمون سابق کے مناسب ہے کہ جن لوگوں نے ترک وطن کیا اور یہ ترک وطن بھی ان بیچاروں کو مجبور کرکے کرایا گیا اور ان کو محض اس جرم میں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آئے تھے ان کو وطن سے اور ان کے گھروں سے نکالا گیا اور میرے راستے میں ان کو اور صدہا قسم کی تکلیفیں پہنچائی گئیں اور ترک وطن گھروں سے نکالا جانا اور ایذارسانی اور قتل و قتال اور شہادت یہ سب میری وجہ سے ہوئی اور مجھ پر ایمان لانے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اور میرا دستور یہی ہے کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کے اجر وثواب کو برباد نہیں کرتا لہٰذا ان انتھک کام کرنے والوں کو اپنے اعلان کے ذریعہ مطلع کرتا ہوں کہ میں ان لوگوں کے تمام قصور معاف کردوں گا اور تمام تقصیرات کو ان کی مٹادوں گا۔ تقصیرات سے مراد صغائر تو ظاہر ہی ہیں۔ جیسا کہ اکثر نے کہا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ حقوق الٰہی کا جہاں تک تعلق ہے ان سیأت کو صغائر سے عام رکھا جائے۔ جیسا کہ بعض اکابر نے کہا ہے البتہ اس عام میں سے حقوق العباد کو مستثنیٰ کردیا جائے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ دین اور قرض معاف نہیں ہوتا۔ (واللہ اعلم) اور قٰتلوا اور قتلوا کا یہ مطلب نہیں کہ سب کے سب جہاد کرنے والے شہید ہوگئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو مرگئے وہ مرگئے باقی آخر تک میدان جہاد جمے رہے۔ جیسا کہ ہم نے تیسیر میں اشارہ کیا ہے کہ بہت سے مارے بھی گئے اسی طرح فی سبیلی کا تعلق بھی تمام افعال مذکورہ سے ہے۔ جیسا کہ ہم نے تسہیل میں وضاحت کردی ہے۔ واللہ عندہ حسن الثواب کا مطلب یہ ہے کہ بہترین اور اچھا صلہ تو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کہیں نہیں مل سکتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس ثواب مذکور سے اور بہتر ثواب بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اس سے اشارہ قرب الٰہی اور دیدارِ الٰہی کی جانب ہو۔ (واللہ اعلم) اور نہروں کے نیچے بہنے کا مطلب وہی ہے جو ہم کئی دفعہ عرض کرچکے ہیں کہ باغوں کی سطح اونچی ہو اور نہروں کی سطح نیچی ہو یانہروں کے کنارے پر باغ ہوں اور یا یہ کہ جو بارہ دری اور محل اور سیرگاہ ہو اس کے نیچے نہروں کا پانی بہہ رہا ہو۔ (واللہ اعلم) اب آگے کافروں کے انجام کا بیان فرماتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم کا قاعدہ ہے تاکہ دونوں باتوں پر غور کرنے کا موقعہ مل جائے اور ایمان و کفر کی حقیقت اور دونوں کا انجام معلوم ہوتا رہے اور اوپر یہ بحث آبھی چکی ہے کہ کفار کے عیش اور اہل ایمان کی مصیبت سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے۔ چناچہ پہلی آیت میں کفار کے عیش کی بےثباتی اور دوسری آیت میں اہل تقویٰ کا اجر وثواب اور تیسری آیت میں مؤمنین اہل کتاب جو اپنی شریعت کے بعد نبی آخر الزماں ﷺ کی شریعت پر ایمان لائے ان کے اجر وثواب کا ذکر ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top