Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 200
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا١۫ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَصَابِرُوْا : اور مقابلہ میں مضبوط رہو وَرَابِطُوْا : اور جنگ کی تیاری کرو وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : مراد کو پہنچو
اے ایمان والو ! مصائب پر صبر کرو اور دشمن کے مقابلہ میں ثابت قدم رہو اور آمادہ و مستعد رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم مقصد میں کامیاب ہو2
2 اے ایمان والو ! تم مصائب پر صبر کرو اور تکالیف کو برداشت کرو اور جب جہاد اور میدانِ جنگ میں ہو تو دشمن کے مقابلے میں مضبوطی کے ساتھ جمے رہو اور حق کی خدمت کے لئے آمادہ و مستعد اور کمربستہ رہو اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب اور فائز المرام ہو۔ (تیسیر) آیت میں مسلمانوں کو چار باتوں کا حکم دیا گیا ہے پہلی بات کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دین پر قائم رہوجس قسم کی تکلیف پیش آئیں ان کو ہمت کے ساتھ برداشت کرو خواہ وہ تکلیف نفس اور شیطان کے مقابلہ کی وجہ سے پیش آئے یا حضرت حق کی محبت اور عبادت میں پیش آئے یا کفار اور دشمنان دین کی جانب سے پیش آئے یا اور کسی قسم کی بلا اور مصیبت پیش آئے۔ دوسری بات کا مطلب یہ ہے کہ خدمت کے لئے آمادہ اور کر بستہ رہو خود بھی مستعدرہو اور اپنے سامان اور گھوڑوں کو بھی تیار رکھو۔ مرابطہ کی تفصیل تو ہم ابھی عرض کریں گے یہاں دو معنی ذہن نشین کرلینے چاہئیں۔ ایک معنی تو یہ ہیں کہ دارالاسلام کی حدود کا پہرہ دو اس حد کی حفاظت کرو جو دارالاسلام اور دارالکفر کے مابین ہے تاکہ دشمن اسلامی ملک کی حد میں داخل نہ ہوسکے اور دوسرے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے عام احکام کی پابندی اور اس پابندی پر مواظبت اس دوسرے معنی میں ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی داخل ہے کیونکہ یہ بھی ایک حکم ہے اگرچہ استحبابی ہے۔ چوتھی بات کا مطلب یہ ہے کہ حضرت حق جل مجدہ سے ڈرتے رہو اور یہ ڈرنا ہر حال میں ہے اگر اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا تو ہر حکم کے بجالانے میں خلوص اور نیک نیت رہے گی اور جو عمل نیک نیتی پر مبنی ہوگا وہ مقبول ہوگا۔ اور یہی مقصد کی کامیابی ہے کہ حق تعالیٰ کی خوشنودی کی غرض سے جو کام کیا جائے اس کو وہ قبول فرمالے اور جو اث ایک مقبول عمل پر مرتب ہوتا ہے وہ مرتب ہوجائے۔ حدیث شریف میں آتا ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتائوں جو خطائوں کو مٹا دیتا ہے اور درجوں کو اونچا کرتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا تکلیف کے وقت اچھی طرح وضو کرنا، مساجد کی طرف بکثرت جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہی رباط ہے یہی رباط ہے یہی رباط ہے۔ (مسلم نسائی) حضرت ابوہریرہ نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے کہا تو جانتا ہے یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو مسجدوں کو آباد رکھتے ہیں۔ نماز وقت پر پڑھتے ہیں پھر وہاں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذ کر کرتے ہیں۔ یہی قول ہے حضرت علی ؓ ، حضرت جابر بن عبداللہ، ابو ایوب، ابن عباس، سہل بن حنیف اور محمد بن کعب قرظی کا ؓ اجمعین۔ حضرت سہل بن سعد سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دن کا دینا دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے۔ (بخاری مسلم) سلمان فارسی کے مرفوعاً الفاظ یہ ہیں کہ اللہ کی راہ میں ایک دن رات کا رباط ایک مہینے کے روزوں اور رات کی عبادت سے بہتر ہے۔ اگر ایسی حالت میں مرجائے گا تو اس کا عمل قیامت تک جاری رہے گا۔ (مسلم) حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت ہے جو شخص رباط کی حالت میں مرا وہ قبر اور قیامت کے فتنے سے مامون ہوگیا اور اس کو صبح شام رزق دیا جاتا ہے اور اس کیلئے قیامت تک مرابط کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ (احمد) امام احمد نے ابو ریحانہ سے نقل کیا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک شب جاگنے والی آنکھ پر جہنم ۔۔ حرام کردی گئی ہے۔ غرض ! اس باب میں بیشمار احادیث مروی ہیں اور دونوں معنی کی گنجائش ہے اصحاب رسول اللہ ﷺ نے دونوں قول اختیار کئے ہیں۔ خواہ مواظبت علی الطاعات اختیار کرلیا جائے یا حدود دارالاسلام کی حفاظت و حراست اختیار کرلیا جائے۔ ایک قول کا تعلق زمانۂ امن سے ہے اور دوسرے کا زمانۂ جنگ سے۔ (واللہ اعلم بالصواب) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ ثابت رہو۔ یعنی دین پر اور مقابلے میں یعنی جہاد میں اور لگے رہو یعنی کافروں کے سامنے۔ (موضح القرآن) حضرت عثمان بن عفان سے دارمی نے نقل کیا ہے جو شخص کسی شب کو آل عمران کی آخری آیات کی تلاوت کرلیتا ہے تو وہ رات اس کی عبادت میں لکھی جاتی ہے۔ دارمی نے مکحول سے یہ بھی نقل کیا ہے جو شخص جمعہ کے دن آل عمران کا آخری حصہ تلاوت کرتا ہے تو فرشتے رات تک اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ (تسہیل) الحمد اللہ ! کہ آج 72 صفر 6631؁ھ چہار شنبہ کے روز دن کے گیارہ بجے اپنے تقصیر علمی کے اعتراف کے ساتھ سورة آل عمران کی تفسیر ختم کررہا ہوں۔ اس حقیقت کا مکرر اعتراف کرتا ہوں کہ قرآنی مطالب اور مفاہم کی وسعت کے مقابلے میں میری تفسیر محض لاشی ہے اور نیک ناپیدا کنار سمندر میں سے ذرا سی بھی نمی نہیں ہے جو کچھ اپنے اساتذہ سے سنا اور جو اپنے اکابر کی تفاسیر سے سمجہا اس کا خلاصہ عرض کردیا ہے تاکہ عوام کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ ہم کو کسی نے قرآن کا ترجمہ نہیں سمجھایا ہم قرآن کو کس طرح سمجھتے۔ فقیر کو خدا کے فضل و کرم سے پوری توقع ہے کہ یہ تفسیر اور ترجمہ مسلمانوں کے لئے مفید ہوگا میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں ملتجی ہوں کہ ترجمہ، تیسیر اور تسہیل کو قبول فرمائے اور مجھے دین و دنیا کی ذلت و رسوائی سے محفوظ رکھے اور فقیر کا خاتمہ اسلام پر فرمائے اور زمرئہ صالحین و مرابطین میں داخل کردے۔ اللھم وفقنا لما تحب وترضی واجعلنا من الموالبطین۔ و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد والہ اجمعین۔ اب آگے سورة نساء کی تفسیر شروع ہوتی ہے۔ فقیر احمد سعید کان الہ لہ 72 صفر 6631 ء یوم چہار شنبہ۔
Top