Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 25
فَكَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ١۫ وَ وُفِّیَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
فَكَيْفَ : سو کیا اِذَا : جب جَمَعْنٰھُمْ : انہیں ہم جمع کرینگے لِيَوْمٍ : اس دن لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں وَوُفِّيَتْ : پورا پائے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : حق تلفی نہ ہوگی
پھر ان کا کیا حال ہوگا کہ جب ہم ان کو اس دن جمع کریں گے جس کے آنے میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے اور ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا2
2۔ اے پیغمبر ﷺ ! کیا آپ نے ان لوگوں کا حال ملاحظہ نہیں کیا جن کو کتاب سماوی یعنی توریت کے علم میں سے ایک خاص اچھا حصہ دیا گیا ہے یعنی توریت کے اچھے خاصے عالم ہیں ان لوگوں کو اس عرض کے لئے کتاب الٰہی کی طرف دعوت دی جاتی ہے تا کہ وہ کتاب اللہ ان کے مابین مذہبی اختلاف کا فیصلہ کر دے اور توریت کو پڑھنے سے صحیح حکم معلوم ہوجائے تو کچھ لوگ ان ہی میں سے اس دعوت الی الکتاب سے بےرخی اور اغراض و انحراف کرتے ہوئے پہلو تہی کرتے ہیں اور منہ پھیرلیتے ہیں ان کی اس بےرخی اور اعراض و انحراف کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ یوں کہتے کہ ہم کو تو آتش دوزخ صرف چند روز کے سوا مس بھی نہیں کرے گی اور ان کو ان کے دین کے بارے میں ان کی ان افترا پر دازیوں اور ان کے خود ساختہ عقائد نے مبتلائے فریب کر رکھا ہے اور ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے مگر اس گھڑی ان کا کیا خال ہوگا اور ان پر کیا بنے گا جب ہم ان سب کو اس دن جمع کرلیں گ جس دن کے آنے میں ذرا شک و شبہ نہیں اور اس روز ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر بالکل ظلم نہ کیا جائے گا ۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب مسئلہ کی تحقیق کے لئے انہی کی مسلمہ کتاب کی طرف ان کو بلایا جاتا ہے کہ لائو اپنی کتاب لے آئو تا کہ وہ ان کے درمیان صحیح فیصلہ کر دے اور جو مذہبی اختلاف ہے وہ دور ہوجائے تو ان کے اچھے خاصے علماء کا حال یہ ہے کہ اس معقول مطالبے سے پہلو تہی اور روگردانی کر جاتے ہیں آگے وجہ بیان فرمائی کہ اس سے بےرخی کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ یوں سمجھے بیٹھے ہیں کہ یہ جہنم میں جانے ہی کے نہیں اور اگر کہیں ان کو جانا بھی پڑا تو صرف گنتی کے چند دن وہ چالیس دن ہوں یا سات دن ہوں۔ بہر حال ! ان دنوں کے بعد جہنم سے نکل آئیں گے۔ حضرت حق نے فرمایا ان کو ان کے خود ساختہ عقائد اور خانہ ساز افتراء پر درازی نے فریب خوردہ کر رکھا ہے اور یہ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ آخری آیت میں تخویف اور وعید ہے کہ اس دن ان پر کسی بری بنے گی جس دن خدا کے روبرو سب جمع ہوں گے اور وہ دن قیامت کا ایسا ہے کہ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ پھر اس دن صرف اجتماع ہی نہیں بلکہ ہر شخص کو اپنے اپنے کئے کا بدلہ بھی پانا ہے۔ پھر جب تمہارے ان مجرمانہ اعمال و غلط عقائد کا بدلہ ملے گا تو کیا حال ہوگا ۔ آخری ٹکڑے میں ظلم کی نفی ہے یعنی نہ ثواب میں کمی اور نہ سزا میں زیادتی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) یفترون کے تحت فرماتے ہیں یہ ذکر یہود کا ہے کہ قضیے میں اپنی کتاب پر بھی عمل نہیں کرتے اور گناہ پر دلیر ہیں اس غرہ پر کہ ان کے پہلے جھوٹ بنا کر کہہ گئے ہیں کہ ہم میں اگر کوئی بہت گناہ گار ہوگا تو سات دن سے زیادہ عذاب نہ پاوے گا ۔ ( موضح القرآن) فقیر سورة بقرہ میں یہو د کے اس قول کی تفصیل عرض کرچکا ہے۔ چالیس دن کا قول شاید اس بنا پر ہو کہ ان کے بزرگوں نے چالیس دن تک گئو سالہ پرستی کی تھی۔ ( واللہ اعلم) چونکہ اوپر جنگ بدر کی طرف اشارہ آیا تھا اور اس وقت مسلمانوں کی حالت مالی اعتبار سے جیسی نازک تھی اس کا مختصر تذکرہ ہوچکا ہے اور یہ امر طبعی ہے کہ جب انسان اپنے مخالفوں کو اچھی حالت میں دیکھتا ہے اور اپنے کو فقر و افلاس میں مبتلا پاتا ہے تو قدرتی طور پر یہ خیال ہوتا ہے کہ کافروں کے ساتھ ایسی خوشحالی کا معاملہ اور اپنوں کے ساتھ اس قسم کے فقر و فاقہ کا برتائو کیوں ہے ممکن ہے کہ کسی نے اس کو سرکاردو عالم ﷺ ؓ کے گوش گزار بھی کیا ہو اور آپ نے مسلمانوں کو اطمینان دلایاہو جایسا کہ بعض روایات سے معلوم بھی ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فارس اور روم کے فتح ہونے کی بشارت دی تھی اور اس بعض اہل کتاب نے مذاق بھی اڑایا تھا۔ حضرت حق جل مجدہٗ نے اس سوال اور خواہش کا جواب بہترین اور نہایت لطیف پیرایہ میں دیا جو بظاہر ایک دعا ہے جو نبی کریم ﷺ کو تعلیم کی گئی ہے ۔ لیکن اس دعا میں وہ سب کچھ ہے جس کی ایسے موقع پر ضرورت تھی ۔ مسلمانوں کیلئے اطمینان بھی ہے اپنی قدرت اور مالکیت کا اظہار بھی ہے ۔ دن رات اور مردے زندے کے ذکر میں انقلاب کی ایک مکمل تصویر بھی ہے ۔ آئندہ کی ترقی اور مالی برتری اور غلبہ کی طرف اشارہ بھی ہے۔ غرض ایسا عمدہ پیرایہ اختیار کیا ہے جس کی خوبیاں بیان بلکہ تصور سے ہی باہر ہیں اگر اس آیت پر اجزاء کے اجزاء بھی لکھے جائیں تو کم ہیں ۔ چناچہ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں۔ ( تسہیل)
Top