Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 34
ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۚ
ذُرِّيَّةً : اولاد بَعْضُهَا : وہ ایک مِنْ : سے بَعْضٍ : دوسرے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
یہ ایک نسل تھی جس میں بعض بعض سے پیدا ہوئے تھے ۔ اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا جاننے والا ہے3
3۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کو اور عمران کی اولاد کو اقوام عالم پر برگزیدہ فرمایا تھا۔ یعنی نبوت کے لئے ان کو پسند فرمایا تھا۔ یہ لوگ ایک نسل اور ایک ہی سلسلے کے تھے ، ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے یعنی معترضین کی باتوں کو سنتا ہے اور پسندیدہ اور منتخب حضرات کے احوال کو جانتا ہے۔ ( تیسیر) صفوہ خالص چیز کو کہتے ہیں جو ہر قسم کی آمیزش سے پاک ہو۔ یہاں اصطفا سے مراد پسند فرمایا ، چن لینا ، منتخب کرلینا مراد ہے مطلب یہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حضرت نوح اور حضرت ابراہیم و عمران کی بعض اولاد کو اپنی نبوت و رسالت کے لئے منتخب فرمایا تھا اور ان لوگوں کو اہل عالم پر برتری عنایت فرمائی تھی حضرت ابراہیم کی اولاد میں حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل کو سب پیغمبر ان ہی کی اولاد ہی میں ہوئے۔ اسرائیل پیغمبر حضرت اسحاق کی اولاد میں اور نبی آخر الزمان ﷺ حضرت اسماعیل کی اولاد میں ، حضرت عمران سے مراد اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہما السلام) کے والد ہیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون کی نبوت کی طرف اشارہ ہوگا اور اگر عمران سے حضرت مریم کے والد مراد ہوں جیسا کہ یہی ظاہر ہے تو پھر ان کی اولاد سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوں گے۔ ذریۃ آل عمران اور آل ابراہیم سے بدل یا حال ہے یا حضرت نوح سے بھی بدل ہوسکتا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی سلسلے کے لوگ ہیں ۔ با اعتبار دین با اعتبار تبلیغ ایک دوسرے کے حامی و مدد گار ہیں یا یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ خاندانی تعلق رکھتے ہیں کہ یہ سب حضرات آدم کی اولاد ہیں اور آپس میں بھی ایک دوسرے کی اولاد اور ایک دوسرے کی نسل ہیں۔ گویا یہ حضرات دین و ملت کے اعتبار سے بھی ایک سلسلے کے لوگ ہیں اور باپ بیٹے ہونے کی حیثیت سے بھی ایک خاندان کے لوگ ہیں۔ بعض حضرات نے یہاں بھی ترجمہ میں آل ابراہیم سے حضرت ابراہیم اور آل عمران سے حضرت عمران کو مراد لیا ہے۔ جیسے دوسرے پارے کے آخر میں مما توک ال موسیٰ وال ھرون میں اختیار کیا تھا۔ بہر حال اجمالا ً اولو العزم پیغمبروں کا ذکر آیت میں کیا گیا اور اگرچہ آل ابراہیم میں آل عمران بھی داخل تھے لیکن تعمیم کے بعد ان کا ذکر بطور تخصیص کیا گیا ۔ حضرت ابراہیم کی نبوت کا شاید اس لئے ذکر نہ فرمایا ہو کہ ان کی نبوت سب لوگوں کے نزدیک مسلم تھی ، حتیٰ کہ کفار مکہ بھی اپنے کو ان ہی کی ملت پر سمجھتے تھے اور ایک لطیف انداز میں نبی کریم ﷺ کی رسالت کی جانب بھی اشارہ فرما دیا تا کہ جو لوگ آپ کی نبوت کے منکر تھے ان کو تنبیہ ہوجائے کہ جب حضرت ابراہیم کا گھرانا نبوت کے لئے ایک منتخب گھرانا ہے تو نبی کریم ﷺ کی نبوت پر کیوں تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب آگے حضرت مریم حضرت عیسیٰ ، حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا کا حال ذرا تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے تا کہ ایک طرف صحیح واقعات دنیا کو معلوم ہوجائیں اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کی غلط فہمی کا ازالہ ہوجائے اور جو باتیں عیسائیوں نے حضرت مسیح اور حضرت مریم کے متعلق غلط مشہورکر رکھی ہیں ان کا جواب ہوجائے۔ چونکہ آگے کی آیتوں میں حضرت عیسیٰ کی زندگی پر صحیح تبصرہ ہے اور مسلسل تین رکوع تک یہ بحث چلی گئی ہے اس لئے بعض لوگوں نے ان ہی آیات کا تعلق وفد نجران سے بتایا ہے لیکن محقق بات وہ ہے جو ہم تمہید میں عرض کرچکے ہیں کہ اس سورت کی ابتداء ہی وفد نجران کے شکوک و شبہات کے جواب سے ہوئی ہے۔ رہی یہ بات کہ بیچ میں بعض اور باتیں بھی بیان ہوئی ہیں تو وہ قرآن کا ایک واب اور قاعدہ ہے کہ وہ کسی مناسبت سے بطور جملہ معترضہ کے بیچ میں بیان کرجاتا ہے اور پھر اصل مضمون کو شروع کردیتا ہے۔ (تسہیل)
Top