Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 60
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ
اَلْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكَ : آپ کا رب فَلَا تَكُنْ : پس نہ ہو مِّنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
اے نبی یہ امور واقعیہ ہیں جو آپ کے رب کی جانب سے بتائے گئے ہیں تو آپ ان لوگوں میں شامل نہ ہوں جو شک کرنے والے ہیں5
5۔ یقین جانو ! کہ حضرت عیسیٰ کا حال عجیب اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا ہی ہے جیسا آدم کا حال عجیب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے قالب کو مٹی سے بنایا پھر ان کے اس مٹی کے قالب اور مجسمہ کو حکم دیا کہ ہوجا سو وہ ہوگیا ۔ یعنی حکم دیتے ہی ایک جاندار آدمی بن گیا یہ امور مذکورہ اصل حقیقت ہے جو آپ کے رب کی جانب سے بتائی گئی ہے ۔ سوائے پیغمبر آپ ان لوگوں میں سے نہ ہوجانا جو شک کرنے والے ہیں۔ (تیسیر) تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ وفد نجران کے عقیدۂ فاسد کا بطلان کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ مسیح کے متعلق الوہیت کا اعتقاد محض باطل اور لغو ہے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک انسان تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صالح کے تحت بن باپ کے پیدا کیا اور ان کو وہ معجزات عطا کئے جو ان کی نبوت کے لئے صریح دلیل تھے ۔ پھر ان کو ان کے دشمنوں سے محفوظ رکھا اور ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور معاندین کے تمام مکائد اور سازشوں کو نا کام بنادیا۔ ان تمام مہربانیوں کی وجہ سے جو ان کے پروردگار نے ان کے ساتھ کیں نہ وہ خدا بن گئے اور نہ خدا کے شریک ہوگئے ۔ اور نہ ان باتوں سے وہ خدا کے بیٹے کہلانے کے مستحق ہوگئے بلکہ حضرت حق تعالیٰ کے ایک بندے اور رسول ہیں اور حضرت حق کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جس طرح چاہے نوازے اور جس طرح چاہے ان سے خدمت لے۔ رہی یہ بات کہ بن باپ کے پیدا ہونے سے تم نے یہ عقیدہ اختراع کیا تو یہ کون سی ایی بات ہے ، آخرحضرت آدم تو بن باپ اور بن ماں کے پیدا ہوئے تھے اور مشبہ کا عجیب و غریب حال تو مشبہ سے بھی زیادہ ہے، پھر جب بلا باپ اور بلا ماں کے پیدا ہونے والا خدا کے ساتھ شرکت کا حق دار نہیں ہے تو جو شخص صرف بن باپ کے پیدا ہوا ہے وہ کس طرح الوہیت کا مستحق ہوسکتا ہے۔ آخر میں نبی کریم ﷺ کو فرمایا کہ آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں اس کا مطلب ہم دوسرے پارے میں عرض کرچکے ہیں کہ یا تو اس خطاب سے آپ کی امت مراد ہے اور یا محض تاکید و تثبیت کی غرض سے آپ کو فرمایا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ اب تک ہر قسم کے شک سے پاک ہیں اسی طرح آئندہ بھی شک کرینوالوں کا کوئی اثر قبول نہ کریں ، کیونکہ حق وہی ہے جو آپ کے رب نے آپ کو بتادیا ہے آپ ان لوگوں کی باتوں سے متاثر نہ ہوں جو آدم کو بلا باپ اور بلا ماں کے پیدا ہونا تسلیم کرتے ہوئے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر طرح طرح کے اتہام لگائے ہیں۔ جیسے یہود اور نہ ان کی باتوں سے متاثر ہوں جو گھڑی گھڑی یہ کہتے ہیں کہ اچھا آخر ان کا باپ کون تھا۔ بن باپ کے پیدا ہونے پر تو اس قدر حجت کرتے ہیں اور اتنا غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ جو قدیم اور جملہ عیوب سے منزہ اور پاک ہے ا سے عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوجائے جو حادث بھی ہو کھانے پینے اور سکھانے کا محتاج ہو ۔ بول و براز کا عادی ہو ، جیسے نصاریٰ ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ۔ نصاریٰ اس بات پر بہت جھگڑے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بندہ نہیں خدا کا بیٹا ہے آخر کہنے لگے کہ وہ اللہ کا بیٹا نہیں تو تم بتائو کس کا بیٹا ہے ؟ اس کے جواب میں آیت اتری کہ آدم کو تو ماں نہ باپ عیسیٰ کا باپ نہ ہو تو کیا عجیب ۔ ( موضح القرآن) اب آگے ان تمام استدلالات عقلیہ اور نقلیہ کو بیان فرمانے کے بعد ایک اور بات اتمام حجت کے طور پر بیان فرماتے ہیں ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)
Top