Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
پھر آپ کے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو شخص آپ سے کج بحثی کرے تو آپ فرما دیجئے اچھا آئو ہم تم مل کر اپنے اپنے بیٹوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو بلا لیں اور خود ہم اپنے آپ کو بھی شریک کریں پھر ہم سب مل کر خدا کی جناب میں اس طور پر دعا کریں کہ ان پر اللہ کی لعنت ڈالیں جو جھوٹے اور ناحق پر ہوں1
1۔ اب اگر کوئی شخص اس کے بعد کہ آپ کے پاس صحیح علم آچکا اور ایسے واضح دلائل آ چکے جس سے یقینی علم حاصل ہوجاتا ہے پھر کج بحثی اور کٹ حجتی کرنے لگے تو آپ یوں فرما دیجئے کہ اچھا اگر تم دلیل سے نہیں مانتے تو آئو ہم تم مل کر اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عوتوں کو بلا لیں اور ہم اپنے آپ کو اور تم کو بھی ملا کر جمع کرلیں پھر ہم ملکر نہایت عاجزانہ اور گڑ گڑا کر اس طرح دعا کریں کہ جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجیں ۔ یعنی یوں دعا کریں کہ ہم میں اور تم میں جو جھوٹا اور ناحق پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت نازل ہوا ۔ ( تیسیر) لعنت کے معنی ہم بتا چکے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے دور ہونے کو کہتے ہیں جو رحمت سے دور ہوگا وہ غضب اور قہر سے نزدیک ہوگا۔ بھلتہ کے معنی چھوڑ دینے اور تر ک کرنے ہیں ۔ ابتہال کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی رحمت جھوٹوں سے علیحدہ ہوجائے اور جھوٹوں کو خدا کی رحمت چھوڑ دے۔ ابتہال کی دعا میں تضرع کی بھی رعایت ہوتی ہے اسی لئے ہم نے تیسیر میں گڑ گڑانا کیا ہے۔ ندع ابناء نا کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو بلائو ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو بلائو ، ہم اپنے آپ کو بلائیں تم اپنے آپ کو بلائو۔۔۔۔ ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں لفظی ترجمہ کا خلاصہ کردیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اگر تم لوگ دلیل کے قائل نہیں ہوتے تو آئو قطع حجت کے لئے آپس میں مل کر مباہلہ کریں ۔ مباہلہ یہ کہ تم اپنے عزیز و اقربا کو لے آئو ہم اپنے عزیز و اقربا کو لے آئیں اور ہم اپنے آپ بھی شریک ہوں پھر تم سب مل کر ایک میدان میں جمع ہو کر یوں خدا سے دعا کریں کہ اے اللہ جو گروہ ہم میں جھوٹا اور ناحق پر ہو تو اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ اس موقع پر حضرات مفسرین نے بہت روایتیں نقل کی ہیں ان میں سے بعض روایات صحیح ہیں اور بعض کی استاد میں غرابت ہے ۔ بہر حال ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ 9؁ھ میں نبی کریم ﷺ نے نجران کے حاکم کو بھی ایک خط لکھا تھا جس میں ان کے سامنے تین باتیں پیش کی تھیں خط کی عبارت یہ تھی ۔ بسم الہ ابراہیم و اسحاق و یعقوب من محمد النبی رسول اللہ الی اسقف نجران فانی احمد الیکم الہ ابراہیم و اسحاق و یعقوب اما بعد فانی ادعوکم الی عبادۃ اللہ من عبادۃ العباد وادعو کما لی ولایۃ اللہ من ولایۃ العباد فان ابیتم فالجزیۃ فان ابیتم نقد اذنتکم یحرب والسلام۔ یعنی شروع کرتا ہوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے معبود کے نام سے یہ خط ہے محمد الرسول اللہ کی جانب سے طرف نجران کے حاکم اور سردار کے میں حمد وثناء کرتا ہوں حضرت ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے معبود کی حمد وثناء کے بعد میں تم کو دعوت دیتا ہوں کہ تم بندوں کی عبادت چھوڑ کر اللہ کی عبادت اختیار کرو اور بندوں کی سرپرستی سے نکل کر خدا کی سرپرستی میں آ جائو ، پھر اگر تم اپنے ہی دین پر قائم رہنا چاہتے ہو تو جزیہ دینا قبول کرو اور اگر جزیہ بھی قبول نہیں کرتے تو جنگ کیلئے تیار ہوجائو ( والسلام) اس خط کو پڑھنے کے بعد نجران کے سردار نے مشیران خاص سے مشورہ کیا ۔ سب سے پہلے شر جیل بن دواعہ سے مشورہ کیا ۔ شرجیل نے کہا بادشاہ کو معلوم ہے کہ حضرت اسماعیل کی اولاد میں ایک نبی کے آنے کا وعدہ ہماری کتابوں میں موجود ہے ، کچھ بعید نہیں ہے کہ یہ وہ ہی نبی ہو ۔ یہ دین کی بات ہے اس میں میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ چنانچہ شرجیل کے بعد ابہم ، سید اور عاقب سے بادشاہ نے مشورہ کیا ۔ پھر ایک دن وادی نجران کے تمام ذمہ دار لوگوں کو بلا کر مشورہ کیا اور رائے یہ قرار پائی کہ پہلے چند آدمیوں کو بطور وفد مدینہ بھیجا جائے اور اس وفد کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اس شخص کا حال دیکھ کر اور تمام ماحول کا اندازہ لگا کر جو مناسب مجھے فیصلہ کر آئے اور ہم سب لوگ اس فیصلے کے پابند ہوں گے۔ چنانچہ اس بنا پر یہ وفد حاضر ہوا اور یہاں آ کر گفتگو کی حضور اکرم ﷺ نے ان کو اپنی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت بھی ۔۔۔۔ دی اور یہ لوگ اپنے طریق پہ مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اس سلسلے میں جو آیتیں نازل ہوتی رہیں ۔ حضور ﷺ ان کو سناتے رہے تا آنکہ آخر میں ان سے کہا گیا کہ اچھا آئو اب آخری فیصلہ کے لئے مباہلہ منظور کرو۔ چنانچہ انہوں نے اول مہلت طلب کی اور وفد کے تمام ممبروں نے باہم مشورہ کیا ۔ دوسرے دن نبی کریم ﷺ حضرت حسین ؓ اور حضرت علی ؓ کے ہمراہ تشریف لائے حضرت فاطمہ ؓ پیچھے تھیں ۔ آپ نے فرمایا اے اللہ یہ میرے گھر والے ہیں۔ ابن عساکر کی روایت میں ہے جعفر بن محمد سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے ہمراہ فاطمہ زہرا اور حضرت علی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان اپنی اپنی اولاد کو لئے ہوئے تھے ۔ یہ دیکھ کر شرجیل نے اپنے ہمراہیوں سے کہا ۔ دیکھو ! اگر یہ شخص رسول ہے اور تم اس سے مباہلہ کرتے ہو تو تم عرب کی نظروں میں ہمیشہ مطعون رہو گے اور اہل عرب کے دل میں تمہاری جانب سے ہمیشہ دشمنی قائم رہے گی اور تم اسلام کے پہلے مخالف سمجھے جائو گے اور دیکھو اگر یہ شخص نبی مرسل ہے تو تمہارا ایک بال اور ناخن بھی صحیح سلامت نہیں بچے گا اور تم سب زندہ واپس نہیں جائو گے اور تم کو خدا کی لعنت گھیر لے گی ۔ بلکہ نجران کی تمام آبادی تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اس پر شرجیل کے ہمراہیوں نے کہا پھر آپ کی کیا رائے ہے شرجیل نے کہا میرے رائے یہ ہے کہ آپ ان سے فیصلہ کرلیں اور مباہلہ نہ کریں ۔ یہ شخص منصف ہے یہ جو فیصلہ کر دے گا وہ صحیح ہوگا اس پر دوسرے ارکان بھی متفق ہوگئے۔ شرجیل نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ آج کا دن اور آج کی رات اور کل صبح تک جو فیصلہ آپ ہمارے حق میں فرمائیں گے ہمیں منظور ہوگا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم نے میرے فیصلے کو مان لیا لیکن تمہاری قوم نے نہیں مانا تو کیا ہوگا شرجیل نے کہا اسکی بابت میرے ہمراہی سرداروں سے دریافت کر لیجیے ۔ آپ نے ان سرداروں سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ نجران کے تمام لوگ شرجیل کی باتوں کو مانتے ہیں اور اس کی بات کا انکار نہیں کرسکتے۔ دوسرے دن شرجیل پھر خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ نے فرمایا میں نے تم کو تین باتیں لکھیں تھیں ۔ تم ان میں سے کون سی بات قبول کرتے ہو ۔ اس پر شرجیل نے کہا ہم عرب سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور ہم اپنے مذہب کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتے آپ اپنے مذہب پر رہیں اور ہم اپنے مذہب پر رہیں ۔ آپ پر جو جزیہ مقرر کردیں گے اس کو ہم ادا کردیا کریں گے۔ تب حضور ﷺ نے فرمایا : نجران کی تمام آمدنی تم رکھو ہم کو صرف دو ہزار حلے دے دیا کرو ایک ہزار حلے صفر کے مہینے میں دے دیا کرو اور ایک ہزار رجب کے مہینے میں ادا کردیا کرو۔ چناچہ اس پر عہد نامہ لکھا گیا اور وفد نجران کی درخواست کے موافق ان کے ہمراہ ایک امین شخص کا بھیجنا منظور کرلیا ۔ حضور ﷺ نے اپنا امین جس کو منتخب کیا وہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح تھے۔ ان تمام روایتوں کا جو اس باب میں منقول ہیں ۔ ابن کثیر سے ہم نے خلاصہ نقل کردیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے ایک روایت کتب احادیث میں مروی ہے کہ ایک دن ابو جہل نے کہا اگر میں محمد کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے دیکھتا تو ان کی گردن دبا دیتا ۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ ایسا کرتا تو خدا کے فرشتے کھلم کھلا پکڑ لیتے اور اگر یہود موت کی تمنا کرلیتے تو مرجاتے اور اپنی جگہ آگ میں دیکھ لیتے اور اگر انصاری کا وفد مباہلہ کرلیتا تو وہ اپنے مال اور گھر بار کو واپس نہ پاتے ، یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اکثر علماء کے نزدیک چند شرائط کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی مباہلہ کو جائز کھا ہے۔ جیسا کہ امام احمد بن حنبل ، حافظ ابن حجر اور حضرت عبد اللہ بن مسعود سے اس قسم کا مطالبہ منقول ہے کہ آپ نے اپنے مخالفوں سے مباہلہ کا معاملہ کیا تھا ۔ مباہلہ کرنے والے اہل تقویٰ ہوں اور مسئلہ یقین ہو ظنی نہ ہو تو مباہلہ کیا جاسکتا ہے اور بھی بعض شروط ہیں جو کتب فقہ سے معلوم ہوسکتی ہیں مباہلہ پر چونکہ عیسائی تیار نہیں ہوئے اس لئے مباہلہ نہیں ہوسکا اور نہ اس کا انجام معلوم ہوسکا لیکن اتنا بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے اگر مباہلہ ہوتا تو وہ لوگ تباہ و برباد ہوجاتے یا سور اور بند کردیئے جاتے یا ان کو آگ گھیر لیتی اور اس کا اب بھی امکان ہے کہ اگر مباہلہ کیا جائے تو اہل باطل کو کوئی سخت نقصان پہنچ جائے۔ ( واللہ اعلم) مباہلہ میں صرف فریقین کی شرکت ضروری ہے ۔ اعزاء اور اقارب کا جمع کرنا ضروری نہیں اعزاء کا جمع کرنا محض اہتمام کی غرض سے ہوتا ہے اور اپنے دعویٰ کو سچا ثابت کرنے کے لئے ہوتا ہے گویا ہم اپنی بات کو اس قدر سچا سمجھتے ہیں کہ خود بھی میدان مباہلہ میں حاضر ہیں اور وہ اپنے محبوب ترین اعزاء کو بھی ہم نے حاضر کردیا ہے ، یہ بات اپنے سچائی کے کامل یقین کا موجب ہوتی ہے۔ ابناتنا کا مفہوم اس آیت میں عام ہے بیٹا ہو ، بیٹے کا بیٹا ہو، نواسا ہو ، داماد ہو سب پر ہی صادق آتا ہے اسی طرح لفظ نساء سے خاص زوجہ مراد نہیں بلکہ گھر کی عورتیں مراد ہیں ۔ خواہ وہ بیوی ہو یا بیٹی ہو۔ انفسنا سے مراد خود نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس ہے ۔ ابن عساکر کی روایت سے یہ مراد اور واضح ہوجاتی ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان اور ان کی اولاد بھی ہمراہ تھیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے نہ صلبی اولاد مراد تھی اور نہ خاص مباہلہ کرنے والوں کی بیویاں مراد تھیں ، بلکہ محض خاندان اور قرابت دارمقصود تھے اور ان سب کا جمع کرنا بھی محض اثبات یقین کے لئے تھا ورنہ آپ نے فرما دیا تھا کہ جب ہم دعا کریں تو تم لوگ آمین کہنا ۔ بعض شیعی حضرات نے کہا ہے کہ حضرت علی نہ عورتوں میں تھے نہ بیٹوں میں لہٰذا وہ انفسنا میں شامل تھے اور ان کو انفسنا میں داخل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول اللہ کے عین اور ان کے مساوی تھے اور جب وہ رسول کے مساوی تھے تو وہی خلافت بلا فصل کے مستحق تھے۔ صاحب تفسیر مظہری نے اس استدلال کے کئی جواب دیئے ہیں ۔ از نجملہ ایک جواب قاضی صاحب (رح) نے یہ بھی دیا ہے کہ اگر یہ تسلیم بھی کرلیتا جائے کہ آیت مباہلہ میں لفظ انفسنا میں حضرت علی ؓ داخل ہیں تو زیادہ سے زیادیہ کہا جاسکتا ہے کہ حضر ت علی ؓ نبی کریم ﷺ کے متعلقین میں سے ہیں خواہ یہ تعلق دینی ہو یا نسبی ہو۔ یہ مطلب نہیں کہ حضرت علی ؓ نبی یا ان کے بالکل ہم پلہ اور مساوی ہیں ۔ قرآن کریم میں یہ لفظ بہت جگہ استعمال کیا گیا ہے ، مثلاً لا تخرجون انفسکم من دیار کم تقتلون انفسکم ، ظن المومنون والمومنت بانفسھم خیرا اور ولا تلمز وانفسکم۔ ان تمام مواقع میں سے کہیں بھی نہ عین مراد ہے نہ مساوات و ہمسری مراد ہے ، یہ جواب چونکہ سہل تھا اس لئے ہم نے اس کو یہاں نقل کردیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ نصاریٰ اس قد سمجھانے پر بھی اگر قائل نہ ہوں تو ان کے ساتھ قسم کا معاملہ کرو یہ بھی ایک صورت فیصلہ کی ہے کہ دونوں طرف اپنی جان سے اور اولاد سے حاضر ہوں اور دعا کریں کہ جو کوئی ہم میں جھوٹا ہے اس پر لعنت اور عذاب پڑے ۔ پھر حضرت آپ اور حضرت فاطمہ اور امام حسن اور امام حسین اور حضرت علی کو لے کر گئے ان نصاریٰ میں جو دانا تھا انہوں نے مقابلہ نہ کیا اور جزیہ دینا قبول رکھا۔ ( موضح القرآن) اب آگے پھر اہتمام کے طور پر توحید کو مکرر بیان فرماتے ہیں تا کہ خلاصہ کے طور پر تمام بیان پھر مستحضر ہوجائے اور نصاریٰ کو تنبیہ ہو۔ (تسہیل)
Top