Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 68
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک اَوْلَى : سب سے زیادہ مناسبت النَّاسِ : لوگ بِاِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم سے لَلَّذِيْنَ : ان لوگ اتَّبَعُوْهُ : انہوں نے پیروی کی انکی وَھٰذَا : اور اس النَّبِىُّ : نبی وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّ : کارساز الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قریب تر لوگوں میں سے حقیقتاً وہ لوگ تھے جو اس کے پیرو تھے اور یہ نبی اور مسلمان اس سے قریب تر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا کار ساز ہے3
3۔ یقینا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ لوگوں میں سے قریب تر اور خصوصی نسبت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو ان کے زمانے میں ان کے پیرو اور متبع تھے اور یہ نبی اور وہ اہل ایمان جو اس نبی پر ایمان لائے وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قریب تر اور خصوصی نسبت رکھنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا حامی و کار ساز ہے۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ تم لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کس طرح اپنی مناسبت اور خصوصیت بیان کرتے ہو وہ چونکہ یہودیت اور نصرانیت سے قبل گزرے ہیں اس لئے نہ تو وہ یہودی تھے نہ نصرانی رہی یہ بات کہ تم ان کی امت پر ہو اور یہودیت و نصرانیت کا مسلک وہی ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ نہ تمہارے اصول ان سے ملتے ہیں اور نہ تمہارے مسائل فرعیہ ان سے مطابقت و موافقت رکھتے ہیں لہٰذا تم کو کوئی قرب اور کوئی مناسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے نہیں البتہ اگر کسی کو کوئی قرب اور خصوصی تعلق ان سے حاصل ہے تو وہ لوگ وہی ہوسکتے ہیں جو ان کے زمانے میں ان پر ایمان لائے ان کے ساتھ رہے ۔ ہر دکھ درد میں ان کے شریک رہے ان کی پیروی کرتے رہے اور پھر یہ نبی اور اس کی امت ہوسکتی ہے کیونکہ یہ اصول میں تو بالکلیہ اور بےشمارفروع میں بھی ملت ابراہیمی کی پابند ہے اور ان کی ملت کا نام ہی ملت ابراہیمی ہے اگرچہ یہ نبی ایک مستقل شریعت رکھتا ہے جو تمام شرائع سابقہ کی ناسخ ہے لیکن جہاں تک ملت کا تعلق ہے اس میں اور ملت ابراہیمی میں کوئی فرق نہیں ہے اور اتنی بات سے کہ دونوں ملتیں یکساں ہوں نبی کریم ﷺ کی شریعت کے استقلال پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، جیسا کہ ہم پہلے پارے میں بالتفصیل عرض کرچکے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ نہ تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امت ہو اور نہ تم اصول اور اکثر فروع میں ان کے موافق ہو لہٰذا تم کو ان سے قرب اور خصوصیت کا کوئی حق نہیں ۔ اس کے حق دار تو ان کی امت کے لوگ ہیں اور یہ نبی یعنی محمد ﷺ ہیں اور اس کی امت ہے جو اس پر ایمان لائی ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی ولایت و حمایت کا اعلان فرمایا کیونکہ یہ لوگ تمام انبیاء (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہیں بخلاف یہود و نصاریٰ کے کہ کسی پر ایمان لاتے ہیں اور کسی پر ایمان نہیں لاتے اور جن پر ایمان لاتے ہیں ان کی شریعت کو بھی اپنے مطلب کا بنا لیتے ہیں اور اپنے دھب کی شریعت پر عمل کرتے ہیں لہٰذا ان کے مقابلے میں اہل ایمان کے لئے اپنی حمایت اور اپنے ثواب کی بشارت کا اظہار فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ صاحب نے فرمایا کہ ابراہیم کو یہودی یا نصرانی اگر اس معنی میں کہتے ہو کہ توریت اور انجیل پر عمل کرتا تھا تو صریح بےعقلی ہے توریت اور انجیل اس سے بعد نازل ہوئی ہیں۔ اور اگر یہ غرض ہے کہ اس وقت بھی اہل ہدایت کا نام تھا یہود اور نصاریٰ تو بھی غلط ہے بلکہ ابراہیم نے اپنے تئیں حنیف کہا ہے۔ حنیف کے معنی جو کوئی ایک راہ حق پکڑے اور سب راہ باطل چھوڑ دے اور مسلم کے معنی حکم بردار اور اگر یہ عرض ہے کہ دینوں میں یہود کے دین کو یا نصاریٰ کے دین کو زیادہ مناسبت ہے ۔ ابراہیم کے دین سے سو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ زیادہ مناسبت ابراہیم سے اس وقت کی امت کو تھی یا پچھلی امتوں میں اس نبی کی امت کو ہے تو یہ امت نام میں بھی اور راہ میں بھی ابراہیم سے مناسبت زیادہ رکھتی ہے کہ اپنی راہ کے حق ہونے پر کسی کی موافقت سے دلیل جب پکڑے کہ اپنے اوپر وحی نہ آتی ہو سو یہ اللہ والی ہے ، مسلمانوں کا یہ کہ اس کے حکم پر چلتے ہیں۔ ( موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے جو تفصیل فرمائی ہے وہ مطلب کی وضاحت کے لئے بہت کافی ہے اب آگے اہل کتاب کی مزید خواہشات فاسد کا رد کیا جاتا ہے اور ان کو آیات خداوندی کے انکار پر تنبیہ کی جاتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)
Top