Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 76
بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
بَلٰي : کیوں نہیں ؟ مَنْ : جو اَوْفٰى : پورا کرے بِعَهْدِهٖ : اپنا اقرار وَاتَّقٰى : اور پرہیزگار رہے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
مواخذہ کیوں نہ ہوگا جو شخص اپنے اقرار کو پورا کرے گا اور خیانت سے پرہیز کریگا تو یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو پسند فرماتا ہے1
1۔ اور ان اہل کتاب میں سے بعض شخص تو ایسا ہے کہ اگر اے مخاطب تو اس کے پاس ڈھیر کا ڈھیر مال بھی امانت رکھ دے تو جب تو طلب کرے وہ اس مال کو تجھے ادا کر دے اور انہی اہل کتاب میں سے کوئی ایسا بھی ہے کہ اے مخاطب اگر تو اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھ دے تو وہ تجھ کو وہ دینار بھی ادا نہ کرے مگر یہ کہ تو ہر وقت اس کے سر پر کھڑا رہے یہ امانت کا ادا نہ کرنا اور ان کا خیانت کرنا اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان پڑھ یعنی غیر اہل کتاب کا حق مار لینے میں ہم پر کوئی الزام اور کوئی مواخذہ نہیں اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ یہ خود اس بات کے غلط ہونے کو جانتے ہیں مواخذہ کیوں نہ ہوگا ضرور ہوگا۔ بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے عہد کو پورا کرے گا اور خیانت و کفر کی روش سے بچتا رہے گا تو یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ ایسے پرہیز گاروں کو پسند کرتا اور دوست رکھتا ہے۔ ( تیسیر) قنطار کو اس سورت کے شروع میں بتایا جا چکا ہے کہ مال کے انبار کو کہتے ہیں دینار سونے کے سکے کو کہتے ہیں ۔ شاہ صاحب (رح) نے اشرفی ترجمہ کیا ہے یہاں مراد تھوڑا مال ہے مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب میں کچھ لوگ تو امین اور امانت کے سچے ہیں ان کے پاس کتنا ہی مال رکھ دو جب ان سے طلب کرو وہ فوراً نکال کر رکھ دیں اور بعض ایسے کم بخت لیچڑ ہیں کہ ان کے پاس تھوڑا سا مال مثلاً ایک گنی امانت رکھ دو تو طلب کرنے کے وقت وہ اشرفی بھی واپس نہ کریں بلکہ موقع لگے تو مکر جائیں مگر ہاں لینے والا ان کے سر پر ہی کھڑا رہے یعنی خوب تقاضا کرے اور ان کے خلاف حاکم کے ہاں دعویٰ کر دے یا خوشامد کر کے مانگے تب ان سے وہ امانت وصول ہوجائے تو ہوجائے۔ خیر یہاں تک تو بخل اور لیچڑ پنے کی بات تھی لیکن آگے فرمایا کہ ان نادہندوں نے ایک مسئلہ بنا رکھا ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ یہاں کہتے ہیں کہ ان عرب کے جاہل لوگوں کا مال کھا جانا ہمارے لئے حلال ہے یعنی جو لوگ اہل کتاب نہیں ہیں ان کی رقم خواہ کسی طرح کھا جائو سب جائز ہے۔ خیانت کرلو ، دھوکہ دے دو چرا چھپا کے ان کا حق مار لو سب جائز ہے یہ لوگ اللہ کی جانب جھوٹی بات کی نسبت کرتے ہیں حالانکہ دل سے یہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ توریت میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ غیر اہل کتاب کا مال تم کو خیانت سے کھا جانا جائز ہے اور ایسا کرنے سے تم پر کوئی الزام نہیں۔ آگے فرمایا بلی یعنی تم پر الزام ضرور ہوگا اور تم سے اس قسم کی خیانت پر ضرور مواخذہ ہوگا کیونکہ ہمارا قاعدہ یہ ہے اور آسمانی شریعت کا قانون یہ ہے کہ جو شخص اپنے عہد کو پورا کرے گا خواہ وہ عہد اللہ تعالیٰ سے کیا ہو یا کوئی جائز یا صحیح عہد بندے سے کیا ہو اس عہد کی پابندی کرے گا اور خدا سے ڈرتا رہے گا ۔ جس میں خیانت اور کفر سے بچنا بھی آگیا کیونکہ جو خدا سے ڈرے گا وہ کفر اور خیانت سے پرہیز کرے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے پرہیز گاروں کو محبوب رکھتا ہے۔ آیت کے شان نزول کے بارے میں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امانت دار حضرات سے وہ اہل کتاب مراد ہیں جو اسلام قبول کرچکے تھے یا بعد میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا یہ آیت ان کی تعریف اور مدح میں نازل ہوئی ہے۔ کسی نے عبد اللہ بن سلام ؓ کے پاس 0021 اوقیہ امانت رکھا تھا اور انہوں نے طلب کرنے کے وقت جوں کا توں ادا کردیا تھا اور جن لوگوں کی خیانت کا ذک رہے اور جن کی مذمت کی گئی ہے ان سے مراد کعب بن اشرف یا فخاص بن عازورا ہے کہ کسی قریشی نے اس کے پاس ایک دینار امانت رکھوایا تھا مگر اس نے اس میں بھی خیانت کرلی ۔ بہر حال آیت کا نزول خواہ کسی خاص موقع کے ساتھ تعلق رکھتا ہو مگر آیت کا مفہوم عام ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ اللہ صاحب مسلمانوں کو سناتا ہے کہ جن کی یہ نیت ہے کہ پرانا حق کھانے کو یہ مسئلہ بنا لیا کہ ہم کو غیر دین والوں کی امانت میں خیانت کرنی روا ہے ان کی بات دین کے مقدمہ میں کیا سند ہو سکے ۔ ہمارے ہاں بھی کافر حربی کا مال زور سے لینا روا ہے لیکن امانت میں خیانت روا نہیں۔ ( موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے فقہ کے ایک اور مسئلہ کی طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ ہمارے ہاں جو حربی کے مال اور اس کے خون کو مباح کہا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑ کر اس کا مال چھین سکتے ہو یا اس کی رضا مندی سے لے سکتے ہو لیکن جھوٹ بول کر یا خیانت کر کے حربی کا مال لینا جائز نہیں اور بات بھی یہ ہے کہ آسمانی شریعت میں شریعت میں خیانت اور کذب کی اجازب ہو بھی نہیں سکتی۔ پھر اہل کتاب کا یہ کہنا کہ لیس علینا فی الامین سبیل اس کا مطلب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک حربی اور غیر حربی کا سوال نہ تھا بلکہ وہ غیر اہل کتاب کو اپنے سے کمتر اور جاہل وان پڑھ سمجھتے تھے اس لئے اپنے کو اس کا مستحق سمجھتے تھے ان کا مال کھا لینا اور ان کا حق دبا لینا ہم کو جائز اور روا ہے اگر کسی کو آیت کی عمومیت پر یہ شبہ ہو کہ اگر آیت کو عام رکھا جائے اور یہ کہا جائے کہ آیت میں امانت داروں کی مدح ہے خواہ وہ کافر ہوں یا مسلمان ہوں تو اس تقریر پر کافر کے ایک فعل کی تعریف لازم آئے گی حالانکہ کافر کا کوئی عمل بدوں اسلام کے مقبو ل نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں مقبول عدم مقبول کی بحث نہیں بلکہ یہاں تو ایک اچھے فعل کی تعریف کرنا مقصود ہے خواہ اس کا مرتکب کافر ہی کیوں نہ ہو اور یہی وہ اسلا م کی خوبی فیاضی اور انصاف ہے کہ وہ اچھی بات کو سراہتا ہے ، خواہ وہ کافر ہی کی ہو۔ امانت دار ی ایک بہترین فعل ہے اگر وہ کافر میں ہو تب بھی قابل ستائش ہے اور مسلمان میں ہو تب بھی قابل تعریف ہے باقی رہا مقبول ہونا تو یہ ظاہر ہے کہ کافر کی کوئی بھلائی جب تک وہ مسلمان نہ ہو قابل نہیں البتہ دنیا میں اس کو کوئی فائدہ پہنچ جائے اس کے مال و اولاد میں زیادتی ہوجائے یا قیامت میں اس خوبی کی وجہ سے تھوڑی بہت عذاب میں کمی ہوجائے وہ دوسری بات ہے ۔ اوپر لیس علینا فی الامین سبیل کا رد تھا اور ان کا دعویٰ کی تکذیب تھی اب آگے اسی تکذیب کی تاکید اور وفائے عہد کی فضلیت اور عہد شکنوں کی مذمت اور ان کے لئے وعید کا ذدک رہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)
Top