Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 89
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا١۫ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جو لوگ تَابُوْا : توبہ کی مِنْ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
مگر ہاں وہ لوگ جنہوں نے اس حالت کے بعد توبہ کرلی اور اپنی اصلاح کرلی تو یقین مانو ، اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے1
1۔ ایسے ظالم اور بد کردار لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی اور ملائکہ کی اور انسانوں کی سب کی لعنت پڑی ہے اور یہ لعنت بھی اس طور پر کہ یہ لوگ اس لعنت میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔ نہ ان پر سے کسی وقت جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو کسی قسم کی کوئی مہلت دی جائے گی مگر ہاں وہ لوگ جو اس کافرانہ روش اور بغاوت و سرکشی کے بعد توبہ کرلیں اور اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح اور درستی کرلیں تو یقین جانو ! اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے پھر ای سے باغیوں اور سرکشوں کی توبہ قبولکر کے انہیں معاف کر دے گا اور بخش دے گا۔ (تیسیر) لعنت کی مفصل تفسیر دوسرے پارے میں گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت کا یہ مطلب ہے کہ اس کی رحمت سے دوری ہوتی ہے فرشتوں کی اور لوگوں کی لعنت یہ کہ وہ لعنت کی دعا کرتے ہیں لوگوں سے مراد یہاں مسلمان ہیں جو کافروں پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں یا مومن اور کافر دونوں ہیں کیونکہ بےایمان اور ظالم پر سب ہی لعنت کی دعا کرتے ہیں خواہ وہ لعنت کرنے والا خود بھی اس میں مبتلا ہو مگر اس کا احساس نہیں ہوتا ، جھوٹ بولنے والا بھی کہہ دیا کرتا ہے کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو اور ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ مراد ہوں جو قیامت میں ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ ویلعن بعضھم بعضا تخفیف کا مطلب یہ ہے کہ کفارپر عذاب میں تخفیف نہ ہوگی ۔ مہلت نہ ملنے کا یہ مطلب کہ جو وقت ان کے لئے عذاب کا مقرر ہے اسی وقت داخل کردیئے جائیں گے یہ نہیں ہوگا کہ کچھ دیر کیلئے مہلت دے دی جائے یا عذاب میں داخل ہونے کے بعد کسی وقت بھی مہلت نہیں ملے گی بلکہ مسلسل عذاب ہوگا ۔ خلدین فیھا کا یہ مطلب کہ ہمیشہ لعنت میں مبتلا رہیں گے یا ہوسکتا ہے کہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے ، چونکہ لعنت ہی کا اثر آگ ہے اس لئے دونوں طرضمیر پھر سکتی ہے۔ اصلاح سے مراد ایمان کی اصلاح کرلیں یا ملک میں جو فساد اور شرارت برپا کر رکھی تھی اس کی اصلاح کرلیں یا ظاہر و باطن دونوں کی اصلاح کرلیں چونکہ اوپر کی آیت میں دو احتمال تھے اس لئے ہم نے تیسیر میں ۔ من بعد ذلک کا ترجمہ کرتے ہوئے دونوں کی رعایت ملحوظ رکھی ہے اگر مرتدین مراد لئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ ارتداد کے بعد توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور اگر معاند و سرکش اور ہٹ دھرم اہل کتاب مراد لئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ اس عناد و سرکشی سے باز آجائیں اور مسلمان ہوجائیں۔ کہتے ہیں کہ اس آیت کو سن کر بعض مرتدین تائب ہوئے اور پھر اسلام میں داخل ہوگئے اب آگے توبہ کی اور وضاحت فرماتے ہیں کہ توبہ کس حالت میں قبول ہوتی ہے۔ ( تسہیلض
Top