Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 9
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۠   ۧ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو جَامِعُ : جمع کرنیوالا النَّاسِ : لوگوں لِيَوْمٍ : اس دن لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُخْلِفُ : نہیں خلاف کرتا الْمِيْعَادَ : وعدہ
اے ہمارے پروردگار یقینا تو سب لوگوں کو اس دن جمع کرنے والا ہے جس دن کے واقع ہونے میں ذرا شک و شبہ نہیں بلا شبہ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کیا کرتا2
2۔ اے ہمارے پروردگار ! جب تو ہم کو ہدایت کرچکا اور تو نے ہم کو سیدھی راہ پر لگا دیا تو ہدایت کرنے کے بعد ہمارے قلوب کو کج نہ کر اور ہمارے دلوں کو زیع اور کجی میں مبتلا نہ کر اور ہم کو اپنے پاس سے خاص رحمت عطا کر یقینا تو بڑا فیاض اور بہت عطا کرنے والا ہے۔ اے ہمارے پروردگار ! یقینا تو سب لوگوں کو میدان حشر میں اس دن جمع کرنے والا ہے جس دن کے واقع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کیا کرتا ۔ جو وعدہ کرتا ہے اس کو پورا کرتا ہے اور چونکہ قیامت کا اس نے وعدہ فرمایا ہے لہٰذا یہ ضرور پورا ہوگا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب آپ نے اپنی کتاب نازل فرما کر اور اپنے رسول کو بھیج کر ہماری ہدایت کا سامان کردیا اور ہم کو محکم اور متشابہ پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرما دی تو اب اس کرم نوازی کے بعد ہم کو دین حق اور راہ راست سے گمراہی اور اہل باطل کی راہ کی طرف مائل نہ کیجیو اور ہمارے قلوب ان لوگوں کی طرح کج نہ کیجئو جو متشابہ کے پیچھے محض فتنہ و فساد کی غرض سے پڑے رہتے ہیں اور آیا ت متشابہات کی نئی نئی توجیہات و تاویلات اختراع کیا کرتے ہیں اور ہم کو اپنے خزانے سے خاص رحمت جسے توفیق اور تثبیت کہتے ہیں عطا فرما دے۔ کیونکہ آپ بڑے داتا اور بڑے بخش کنندہ ہیں آپ سے جو مانگا جائے وہ آپ عنایت کرتے ہیں اور یہ توفیق و تثبیت ہم اس لئے طلب کر رہے ہیں کہ ہم کو قیامت کے آنے کا یقین ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جس دن آپ سب لوگوں کو میدان قیامت میں جمع فرمائیں گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کی جزا و سزا کا حکم دیں گے یہ آپ نے وعدہ فرمایا ہے اور آپ کا وعدہ ٹلا نہیں کرتا ۔ حدیث شریف میں آتا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی دل ایسا نہیں ہے جو رحمن کی دونوں انگلیوں کے مابین نہ ہو اگر وہ اس کو سیدھا رکھنا چاہئے تو سیدھا رکھتا ہے اور چاہے تو اس کو ٹیڑھا کردیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ عام طور سے فرمایا کرتے تھے یا مثبت القلوب ثبت قلبی علی ونیک اے قلوب کے ثابت رکھنے والے ، میرے قلب کو اپنے دین پر ثابت رکھو۔ ابو موسیٰ اشعری کی روایت میں ہے فرمایا رسول خدا ﷺ نے قلب کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پر کسی جنگل میں پڑا ہو اور ہوائیں اس کو الٹتی پلٹتی رہتی ہوں اب آگے دین حق کے منکروں کا ذکر فرماتے ہیں کہ جو لوگ ان واضح آیات دلائل کے بعد حق کا انکار کرتے ہیں ان کا دنیا وآخرت ہیں میں کیسا برا انجام ہونے والا ہے چناچہ ارشاد فرماتے ہیں ۔ ( تسہیل)
Top