Kashf-ur-Rahman - Al-Ahzaab : 10
اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا
اِذْ : جب جَآءُوْكُمْ : وہ تم پر آئے مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر وَمِنْ اَسْفَلَ : اور نیچے سے مِنْكُمْ : تمہارے وَاِذْ : اور جب زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : کج ہوئیں (چندھیا گئیں) آنکھیں وَبَلَغَتِ : اور پہنچ گئے الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الْحَنَاجِرَ : گلے وَتَظُنُّوْنَ : اور تم گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الظُّنُوْنَا : بہت سے گمان
جبکہ وہ مخالف لشکر تم پر تمہاری اوپر کی جانب سے اور تمہاری نیچے کی جانب سے چڑھ آئے تھے اور جبکہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور دل حلق میں چلے آ رہے تھے اور تم لو گ اللہ پر طرح طرح کے گمان کر رہے تھے
10۔ یہ امداد و اعانت اس وقت ہوئی جبکہ مخالفین کا لشکر تم پر تمہارے اوپر کی جانب سے اور تمہارے نیچے یعنی نشیب کی جانب سے چڑھ آیا تھا اور یہ لوگ تم تک پہنچ چکے تھے اور جب کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں تھیں اور دل حلق میں چلے آ رہے تھے اور کلیجے منہ کو آرہے تھے اور تم لوگ اللہ تعالیٰ پر طرح طرح کے گمان کر رہے تھے اور خیالات باندھ رہے تھے یعنی کثرت اعداد کی وجہ سے پریشان سراسمیگی مسلمانوں میں بہت تھی اور طبعی طور پر مختلف خیالات اور وساوس کی قلوب آماجگاہ بنے ہوئے تھے کیونکہ نتائج کا کوئی علم نہ تھا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اوپر سے اور نیچے سے یعنی مدینہ کی شرقی طرسے جو اونچی ہے اور غربی طرف سے جو نیچی ہے اور آنکھیں ڈگنے لگیں لوگوں کی یعنی تیور بدلنے لگے دوستی جتانے والے لگے آنکھیں چرانے اور دل پہنچنے گلوں تک دھڑک دھڑک کرتے ڈر سے اور کی گئیں اٹکلیں ، مسلمانوں نے سمجھا کہ اب کے اور سخت آزمائش آئی اور کچے ایمان والوں نے سمجھا کہ اب کی بار نہ بچیں گے۔ 12
Top