بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Kashf-ur-Rahman - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے نبی خدا سے ڈرتے رہیے اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانیئے بیشک اللہ تعالیٰ کمال علم اور حکمت کا مالک ہے
1۔ اے نبی ! اللہ سے ڈرتے رہیے اور کافروں اور منافقوں کا کہنانہ مانیے بلا شبہ اللہ تعالیٰ کمال علم اور کمال حکمت کا مالک ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے مرتبہ کی بلندی کی رعایت رکھتے ہوئے آپ کا نام لیکر خطاب نہیں فرمایا یہ حضور ﷺ کی غایت عظمت اور غایت شرافت کی دلیل ہے کہ آپ کو یا احمد یا محمد نہیں کیا گیا بلکہ یا یھا النبی اور یا ایھا الرسول پر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ڈرتے تو ہیں اس وصف پر ہمیشہ قائم رہے یہی مطلب آگے جو امر کے صیغے آ رہے ہیں ان کا سمجھنا چاہئے۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ خدا سے ڈرتے نہ تھے اس لئے ڈرنے کا حکم دیا گیا ، نیز مخالفین کو سنانا ہے کہ ہمارے پیغمبر تو ان اوصاف پر قائم رہیں گے اور تم احکا خداوندی کی تعمیل سے خائب و خاسررہو گے کافروں اور منافقوں کا ذکر اس لئے فرمایا کہ مکہ کے بعض کافر مدینہ کے بعض منافقوں کے مکان میں آ کر مقیم ہوئے آپ ؐ سے انم طلب کیا آپ نے امن دیدیا ۔ اس کے بعد باہمی مشورے سے طے کر کے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ ہمارے بتوں کے متعلق یہ تسلیم کرلیں کہ وہ قیامت میں شفاعت کریں گے اور نفع دیں گے اور آپ ان کا ذکر چھوڑ دیں تو ہم آپ سے کوئی تعارض نہ کریں گے ۔ آپ اپنے پروردگار کی آزادنہ عبادت کرتے رہیں آپ ﷺ یہ سن کر ملول ہوئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ مکہ کے کافروں اور مدینہ کے منافقوں کا کہنا نہ مانیئے اور ان کی اطاعت نہ کیجئے اور اس عدم اطاعت پر قائم رہیے۔
Top