Kashf-ur-Rahman - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو یہ لائق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیدے تو پھر ان مومن مردوں اور عورتوں کو اپنے کام کا کوئی اختیار باقی رہے اور جو شخص اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کا ارتکاب کرے تو یقینا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوا
36۔ اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو یہ بات لائق اور مناسب نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ کسی کام کا حکم دے دے تو پھر ان مومن مردوں یا عورتوں کو اس کام کا کوئی اختیار باقی رہے اور جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا مرتکب ہوا تو یقینا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑا ۔ یعنی جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حکم کر دے تو بھی مومن مرد یا مومن عورت کو اختیار شرعی باقی نہیں رہتا کہ چاہے اس کام کو کرے یا نہ کرے بلکہ اس حکم کی تعمیل واجب ہوتی ہے اور جو کوئی اس حکم کے بجا لانے میں سرتابی یا پس و پیش کرے گا تو ایسا کرنے والا صریح گمراہی میں مبتلا ہوگا یعنی حکم کی تعمیل میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ یہ شاید تمہید ہے حضرت زینب ؓ کی طلاق اور نکاح کی جیسا کہ شروع سورت میں بیان ہوا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت زینب ؓ رسول خدا کی پھوپھی کی بیٹی اور قوم میں اشراف ، حضرت نے چاہا کہ ان کو نکاح کردیں زید بن حارث سے یہ زید اصل عرب تھے ظالم پکڑے گئے لڑکن میں شہر مکہ میں بکے ۔ حضرت نے مول لیا دس برس کی عمر میں ان کے باپ بھائی خبر پا کر آئے مانگنے کو حضر ن دینے پر راضی ہوئے یہ گھر جانے پر راضی نہ ہوئے ۔ حضرت کی محبت سے پھر حضرت نے ان کو بیٹا کرلیا اسلام سے پہلے اس وقت کے رواج کے موافق حضرت زینب اور ان کے بھائی راضی نہ ہوئے اس بات پر یہ آیت اتری پھر نکاح کردیا۔ 12۔ حضرت زینب بنت حجش ؓ نبی کریم ﷺ کی پھوپھی امیمہ کے بطن سے ہیں ان کے بھائی کا نام عبد اللہ بن حجش ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضور ﷺ نے پہلی مرتبہ پیام دیا تو عبد اللہ راضی ہوگئے تھے پھر انکار کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ پہلی مرتبہ کے پیام کو یہ سمجھتے کہ شاید رسول اللہ ﷺ اپنے لئے چاہتے ہیں مگر جب ان کو معلوم ہوا کہ آپ زید بن حارث کیلئے طلب کرتے ہیں تو انہوں نے انکار کردیا کیونکہ اس زمانے کا رواج تھا کہ قریشی لڑکی کسی ایسے شخص کے نکا ح میں نہیں دی جاتی تھی جو غلام رہ چکا ہو اور ظاہر ہے کہ زید پہلے آنحضرت ﷺ کے زر خرید غلام تھے بعد میں آپ نے اس کو آزاد کر کے لیے پالک بیٹا بنا لیا تھا۔ اس حکم کے بعد عبد اللہ ؓ اور زینب ؓ زید کے ساتھ نکاح کرنے پر رضا مند ہوئے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم دینے کے بعد کوئی چارہ نہ رہا ۔ جب حضرت زینب ؓ سے زید ؓ کا نکاح ہوا تب نبی کریم ﷺ نے اپنے پاس سے دس دینار اور ساٹھ درہم ایک اوڑھنی ایک کرتا ، ایک تہبند ، ایک چادر ، پچاس مدغلہ اور تیس صاع کھجوریں حضرت زینب ؓ کو بھیجیں اور یہ نکاح ہوگیا لیکن مزاجوں میں موافقت نہ ہوئی وہ قریشی لڑکی زید کو خاطر میں نہ لاتی تھی زید ملول ہوتے تھے ۔ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیوی کے برے برتائو اور کج خلقی کی شکایت کرتے تھے غرض جو غیر کفو اور بےجوڑ رشتوں میں باتیں ہوا کرتی ہیں وہ ہوتی تھیں کبھی وہ یہ بھی کہتے تھے کہ میں طلاق دے دیتا ہوں۔ غرض ! ا ن پیچیدگیوں کی وجہ سے نبی کریم ﷺ سخت متامل تھے زید ؓ کو سمجھاتے تھے کہ طلاق نہ دے پھر یہ بھی سوچتے تھے کہ اگر اس نے طلاق دیدی تو زینب ؓ کے تالیف قلوب کی کیا صورت ہوگی غرض اس کا بیان آگے آتا ہے۔
Top