Kashf-ur-Rahman - Al-Ahzaab : 71
یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا
يُّصْلِحْ : وہ سنوار دے گا لَكُمْ : تمہارے عمل (جمع) اَعْمَالَكُمْ : تمہارے عمل (جمع) وَيَغْفِرْ : اور بخش دے لَكُمْ : تمہارے لیے ذُنُوْبَكُمْ ۭ : تمہارے گناہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّطِعِ اللّٰهَ : اللہ کی اطاعت کی وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ فَازَ : تو وہ مراد کو پہنچا فَوْزًا عَظِيْمًا : بڑی مراد
اللہ تعالیٰ تمہارے نیک اعمال کو قبول کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کے کہنے پر چلا تو وہ بہت بڑی کامیابی کو پہنچا
(71) اللہ تعالیٰ تمہارے نیک اعمال کو قبول کرے گا اور تمہارے کام درست کر دے گا اور سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا کہنا مانا تو یقینا وہ بہت بڑی کامیابی کو پہنچا۔ اوپر کی آیت میں پیغمبر کو ایذا پہنچانے سے منع فرمایا تھا اور اس معاملہ میں بنی اسرائیل کی مسابہت نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ پھر عام طور پر تقوے کا حکم فرمایا کیونکہ تقویٰ تمام بھلائیوں کی جڑ اور بنیاد ہے۔ قول سدید کے مفسرین نے بہت سے معنی کئے ہیں ہم نے سیدھی اور پختہ ترجمہ کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عدل اور اعتدال سے متجاوز نہ ہو۔ ابن عباس ؓ نے ترجمہ صواب کیا ہے قتادہ نے عدل کیا ہے حضرت حسن نے صدق کیا ہے۔ حضرت مکرمہ نے لاالہ الا اللہ کیا ہے، اصلاح اعمال سے مراد عمل کی سنوار اور درستی ہے اور یہی مقبولیت کی علامت ہے پھر اطاعت کرنیوالوں کو بخشش گناہ کی بشارت بھی ہے۔ آخر میں اللہ اور رسول کی اطاعت پر کامیابی کا اعلان فرمایا جو فرمانبرداروں کے لئے موجب اطمینان اور موجب مسرت ہے۔
Top