Kashf-ur-Rahman - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے ایمان والوں اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کیا تھا جبکہ تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے تھے پھر ہم نے ان تمہاری مخالف فوجوں پر ایک آندھی بھیجی اور ایسی فوجیں بھیجیں جن کو تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ تعالیٰ ان سب کو دیکھ رہا تھا
9۔ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت فرمایا جبکہ تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے تھے پھر ہم نے تمہاری ان مخالف فوجوں پر ایک تیز و تند آندھی بھیجی اور ایسا لشکر بھیجا جس کو تم نے نہیں دیکھا اور جو اعمال تم کر رہے تھے اللہ تعالیٰ ان سب اعمال کو دیکھ رہا تھا۔ ان آیات میں غزوۂ احزاب جس کو غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اس احسان کا ذکر فرمایا اور غزوۂ احزاب کی بھی تھوڑی سی تفصیل بیان فرمائی اور منافقوں نے جو سوقیانہ حرکت اس جنگ میں انجام دیں اور پارٹ ادا کیا اس کو طشت ازبام کیا گیا ہے نبی کریم ﷺ نے 4؁ھ میں یہود بنی نضیر کو ان کی نا شائستہ حرکات پرجلاوطن کردیا تھا اور مدینہ سے نکال دیا تھا ان جلا وطن لوگوں نے کفار عرب میں حضور کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کیں اور حییی (علیہ السلام) ابن اخطب یہودی سردارنے اس میں نمایاں حصہ لیا اور ہر قوم میں پھر ا یہاں تک کہ قریش فزارہ، غطفان اور بنی قریضہ کو مدینہ منورہ پر حملے کیلئے آمادہ کرلیا اور تقریباً بارہ ہزار کفار کا لشکر مدینہ پر حملہ کرنے کی غرض سے روانہ ہوا ۔ نبی کریم ﷺ کو جب اس ہجوم کی اطلاع ملی تو آپ اپنے ہمراہی جن کی تعداد تقریباً تین ہزار تھی مدینہ سے باہر مسلح پہاڑ کے دامن میں قیام پذیر ہوئے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے مشورہ دیا کہ مدینہ کی حفاظت کیلئے مدینہ کے چاروں طرف خندوق کھودی جائے ہم اہل فارس جنگ کے موقع پر ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ چناچہ ان کی رائے پسند کی گئی اور نبی کریم ﷺ نے تمام مجاہدین کو زمین کھودنے کا حکم دیا اور زمین کے حصے مختلف لوگوں میں تقسیم کردیئے۔ مجاہدین نے خندق کھودنی شرو ع کردی نبی کریم ﷺ بھی مٹی کی ٹوکریاں نکال رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔ اللھم لا عیش الاعیش الاخر ۃ فاغفر الانصار والمھاجر۔ اے اللہ عیش اور زندگی تو آخرت ہی کی زندگی اور آخرت ہی کا عیش ہے پس آپ مہاجر اور انصار کو بخش دیجئے آخر کار کفار کا یہ لشکر جس کی تعداد دس ہزار تھی مدینہ پہنچ گیا اور عینیہ جو غطفانی فوج کا سردار تھا اپنی فوج لیکر جانب شرق کی وادی میں ٹھہرا اور ابو سفیان نے اپنے لشکر کو جانب غرب کی وادی میں ٹھہرا یا۔ بہر حال ! کفار کا یہ لشکر تقریباً ایک ماہ پڑا رہا کوئی خاص مقابلہ نہیں ہوا البتہ کبھی کبھی آپس میں کچھ جھڑپیں ہوجاتی تھیں کبھی پتھرائو ہوجاتا تھا کبھی کبھی تیر چلتے تھے۔ بہرحال ! کوئی بڑا معرکہ نہیں ہوا مسلمان اگرچہ ثابت قدم رہے لیکن کفار کی زیادتی اور ان کے جنگ جو یا نہ رویہ سے خائف ضرور تھے ایک موقع پر مسلمانوں کا خیال ہوا کہ باہم صلح سے یہ خطرہ ٹلادیاجائے لیکن سعد بن معاذ ؓ اور سعد بن عبادہ ؓ نے اتفاق نہیں کیا اور صلح کا خیال ترک کردیا۔ حسن اتفاق سے اسی حالت میں نعیم بن مسعود غطفانی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے اسلام کا اظہار کیا اور یہ بھی عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے اسلام قبول کرنے کی کسی کو اطلاع نہیں ہے اگر آپ اس حالت میں کوئی خدمت مجھ سے لینا چاہیں تو میں حاضر ہوں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا نعیم اس وقت بڑا کام یہ ہے کہ دشمنوں میں باہم تفریق ہوجائے اور ان کے پائوں اکھڑ جائیں اور مدینہ طیبہ کا محاصرہ ختم ہوجائے کیونکہ لڑائی تو دائوں کا نام ہے اگر تم ایسا کوئی دائوں کرسکو تو یہ وقت کا بڑا کام ہے چناچہ نعیم بن مسعود ؓ تشریف لے گئے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ میں تدبیر کرتا ہوں اگر اللہ تعالیٰ نے کامیاب فرمایا تو انشاء اللہ میری تدبیر کامیاب ہوگی ۔ چنانچہ نعیم بن قریظہ کے یہود کے پاس آیا اور ان سے باتیں کرتے ہوئے اس نے کہا تم جانتے ہو میں تمہارا آدمی ہوں ایک بات کہتا ہوں یہ قریش اور غطفانی جو تمہارے ہمراہ لڑنے کے لئے ہیں ان کے اموال اور ان کی اولاد یہاں سے بہت دور ہیں اگر جنگ میں شکست ہوگئی تو ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا اور ان کی اولاد اور ان کے اموال محفوظ رہیں گے بخلاف تمہارے کہ تم مدینہ کے قریب رہتے ہو تم کس طرح محفوظ رہ سکتے ہو اگر شکست ہوئی یا قریش نے اور غطفان نے تمہارا ساتھ چھوڑ دیا تو تمہارے پاس ان کی طرسے کیا ضمانت ہے۔ اس لئے میری رائے یہ ہے کہ تم اس وقت تک ان کے ساتھی ہو کر نہ لڑو جس وقت تک ان کے اشراف اور سرداروں میں کسی ایک کو اپنے پاس ضمانت کے طورپر رہن نہ رکھ لو ۔ بنی قریظہ کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور انہوں نے اس کو قبول کرلیا اور نعیم کی خیرخواہی کا اعتراف بھی کیا ، پھر نعیم قریش کے پاس گیا اور ان سے اس نے باتوں باتوں میں کہا کہ دیکھو میں تمہارا خیر خواہ ہوں ایک بات تم سے کہتا ہوں بشرطیکہ تم اس کو پوشیدہ رکھو ۔ قریش نے وعدہ کیا اس پر نعیم نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنی قریظہ نے اپنی عہد شکنی پر ندامت کا اظہار کیا ہے اور محمد ؐ سے کہلا بھیجا ہے کہ اے محمد ؐ اگر تم کہو تو ہم تم کو قریش اور غطفان کے ایک ایک دودو اشراف اور سردار بھیج دیں انکو قتل کر ڈالو اور ہماری عہد شکنی کو در گزر کرو تو ہم تمہارے ساتھ ہو کر جنگ کریں اور محمد ؐ نے اس کو قبول کرلیا ہے سو اگر تم سے بنی قریظہ والے ضمانت کا نام لیکر کچھ آدمی طب کریں تو تم ان کو نہ دینا اور انکار کردینا ۔ پھر نعیم غطفان کے پاس آیا اور ان سے بھی وہی کہا چناچہ نعیم کی یہ تدبیر کارگر ہوئی ، چناچہ جب قریش اور غطفان نے یہود سے حملہ کرنے اور جنگ کرنے کا تقاضا کیا تو انہوں نے بطورضمانت اشراف کو طلب کیا ، قریش اور غطفان نے انکار کیا اور آپس میں بات بڑھ گئی ۔ آخر ہفتہ کی رات کو ان پروا ہوا کا عذاب آیا اور ٹھنڈی ہوا نے ان کو آلیا تمام خیمے الٹ گئے حتیٰ کہ چولہوں پر جو ہانڈیاں چڑھی تھیں وہ بھی الٹ گئیں گھوڑوں کی میخیں اور کھونٹے اکھڑ گئے ۔ غرض ! کہ کفار کے تمام لشکر میں افراتفری پڑگئی ۔ اس حالت پر ملائکہ اللہ نے تکبیر بلند کی ، ابو سفیان نے چیخ کر کہا اے قریش اب اگر تم ٹھہرے تو صبح تک ہلاک ہو جائو گے یہ ہوا تم کو چھوڑے گی نہیں اور میں جاتا ہوں ، چناچہ ابو سفیان اونٹ پر چڑھ کر بھاگا اور تمام کفار تتر بتر ہوگئے۔ ولحمد للہ علی ذالک ۔ حضر ت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہجرت سے چوتھے برس یہود بنی نضیر جو مدینہ سے نکالے گئے تھے سورة حشر میں آوے گا ہر قوم میں پھرے اور قریش کو اور فزارہ کو اور غطفان کو اور بنی قریظہ کو جو مدینہ کے پاس تھے جمع کر کے حضرت ؐ پر چڑھا لائے بارہ ہزار آدمی مسلمان کم تھے تین ہزار مدینہ سے باہرلشکر پڑا خندق کھودلی ۔ جب فوجیں آئیں دوردور سے لڑتے رہے قریب ایک مہینے تک پھر اللہ نے ایک پروا باد بھیجی تند کافروں کی آگئیں بجھ گئیں بھوکے رہے اور خیمے گرپڑے گھوڑے چھوٹ گئے سب لشکر برباد ہوا لاچار اٹھ کر چلے گئے یہ جنگ احزاب کہلاتی ہے اور جنگ خندوق بھی جاڑے کے موسم میں اناج کی تنگی لڑائی لڑتے خندوق کھودتے اور گرد سب مخالف اس میں منافق دل کی باتیں بولنے لگے اور مؤمن ثابت قدم رہے۔ اس جنگ میں حضرت ﷺ نے فرمایا اب سے ہم جاویں گے کفار پردے ہم پر نہ آویں گے وہی ہوا ۔ 12 صحابہ کرام ؓ نے خندق چھ روز میں کھودی تھی ۔ بہر حال ! یہ مختصر ساخا کہ تھا جنگ احزاب کا جو ہم نے عرض کردیا ۔ وجنود الم تردھا سے مراد ملائکہ ہیں جو عام طور پر نظر نہ آتے تھے اگرچہ بعض صحابہ ؓ نے ان کو بہ شکل انسانی بھی دیکھا تھا ان فرشتوں نے جنگ میں کوئی حصہ نہیں لیا البتہ ان کے آنے کا یہ فائدہ ہوا کہ کفار کے قلوب مرعوب ہوگئے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کو دیکھ رہا تھا۔ یعنی اتنے بڑے ہجوم کے مقابلے میں باوجود اقلیت کے تمہارا استقلال خندوق کی صرف چھ روز میں تکمیل وغیرہ۔
Top