Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم ملک میں سر کرو تو تم کو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کیا کرو اگر تم کو یہ خوف ہو کہ کافر تم کو کسی پریشانی میں مبتلا کردیں گے بلا شبہ کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔1
1 اور جب تم ملک میں سفر کرو تو سفر کی حالت میں تم پر اس بات کا کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرلیا کرو یعنی جس میں چار فرض ہیں بجائے چار کے دو پڑھا کرو اور اگر تم اس بات کا خوف کرتے ہو کہ کافر تم کو اپنی شرارت سے کسی فتنے اور پریشانی میں مبتلا کریں گے بلاشبہ کافر تمہارے صریح اور کھلے ہوئے دشمن ہیں۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں سفر جو تین منزل کا ہو اس میں چار رکعت فرض آیا اس تقریب سے معافی ملی ہر وقت کو اور پوری نہ پڑھئے کہ اللہ صاحب کی بخشش سے بےپروائی ہوتی ہے اور سنت کا تقیہ سفر میں نہیں رہتا۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ شرعی سفر وہ معتبر ہے جو کم از کم تین منزل کا ہو تین منزل سے کم کا سفر قصر کے لئے کافی نہیں۔ قصر سے مراد یہ ہے کہ جن نمازوں کی چار رکعتیں فرض ہیں جیسے ظہر، عصر اور عشاء ان میں بجائے چار فرضوں کے دو فرض پڑھے جائیں اور کافروں کی شرارت کے اندیشہ کا ذکر اس وقت کے حالات کی بنا پر فرمایا ہے اب اگر یہ اندیشہ نہ بھی ہو تب بھی قصر کرنا ہوگا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے حنفیہ کے نزدیک سفر میں نماز کا قصر کرنا رخصت نہیں بلکہ عزیمت ہے یعنی یہ اختیار نہیں کہ چاہے دو پڑھے یا پوری چار پڑھ لے بلکہ دو ہی پڑھنی چاہئیں۔ سفر میں سنتوں کی تاکید باقی نہیں رہتی لیکن سنتوں میں قصر نہیں ہے اگر سنتیں نہ پڑھے تو مواخذہ نہیں لیکن پڑھے تو پوری پڑھے و ترچون کہ واجب ہیں اس لئے ان کی حالت بدستور رہے گی سفر خواہ خشکی کا ہو یا تری کا دونوں کا حکم یکساں ہے۔ مسافر جب کسی شہر یا قصبہ میں قیام پذیر ہو تو اگر پندرہ دن یا پندرہ دن سے زیادہ دن رہنے کی نیت کرے تو وہ شرعاً مسافر نہیں ہتا بلکہ وہ مقام جہاں اس نے پندرہ یا پندرہ دن سے زیادہ قیام کی نیت کی ہے وہ وطن اقامت ہوجاتا ہے۔ اور یہ جو فرمایا فلیس علیکم جناح اس کا یہ مطلب نہیں کہ چاہے قصر کرو یا نہ کروئی کوئی گناہ نہیں بلکہ یہ ایک شبہ کا جواب ہے کہ شاید قصر کریں اور چار کی بجائے دو رکعتیں پڑھیں تو کوئی گناہ ہو اس گناہ کی نفی فرمائی ہے کہ کوئی گناہ نہیں بلکہ دو پڑھنی چاہئیں۔ حضرت یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے دریافت کیا کہ اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم کو کافروں کی فتنہ پردازی کا اندیشہ ہو تو قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں اور اب تو امن حاصل ہوچکا ہے۔ حضرت عمر نے کہا مجھ کو بھی یہ خیال ہوا تھا تو میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آپ ﷺ نے جواب دیا یہ ایک رعایت اور صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر صدقہ کیا ہے لہٰذا تم اس کا صدقہ اور اس کی رعایت کو قبول کرو۔ (مسلم) اس روایت سے معلوم ہوا اگرچہ خاص حالات میں رعایت کا اعلان کیا گیا تھا مگر یہ رعایت ہر سفر میں دائماً ہے اس موقعہ پر اور بھی مختلف مباحث ہیں مزید تفصیل مطلوب ہو تو تفسیر مظہری اور کتب فقہ کا مطالعہ کیا جائے ہم ان میں سے بعض چیزوں کا ذکر سورة بقرہ میں روزے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے عرض بھی کرچکے ہیں اب آگے کفار کے خطرے کے وقت نماز کا طریقہ تعلیم فرماتے ہیں اور نماز کے اس طریقہ کو جو آگے مذکور ہوتا ہے صلوۃ الخوف کہتے ہیں۔ یہاں عام طور پر سفر کا لحاظ کرتے ہوئے دو رکعتوں کے پڑھنے کا طریقہ تعلیم فرمایا ہے لیکن اگر سفر نہ ہو بلکہ مسلمانوں کو اپنی بستی کے قریب ہی جہاد کرنے کی نوبت آئے تو اسی طریقہ سے چار رکعتیں پڑھنی ہوں گی۔ یعنی بجائے ایک رکعت کے دو رکعتیں ایک گروہ امام کے ساتھ پڑھے گا اور دو رکعتیں دوسرا گروہ امام کے ساتھ ادا کرے گا۔ بہرحال ! اب صلوۃ الخوف کا طریقہ تعلیم فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top