Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا١ؕ وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں اَمْوَالَ : مال الْيَتٰمٰى : یتیموں ظُلْمًا : ظلم سے اِنَّمَا : اس کے سوا کچھ نہیں يَاْكُلُوْنَ : وہ بھر رہے ہیں فِيْ : میں بُطُوْنِھِمْ : اپنے پیٹ نَارًا : آگ وَسَيَصْلَوْنَ : اور عنقریب داخل ہونگے سَعِيْرًا : آگ (دوزخ)
بلاشبہ جو لوگ بغیر کسی حق شرعی کے یتامیٰ کا مال کھاتے ہیں تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور وہ عنقریب دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے5
5 یقین جانو ! جو لوگ یتیموں کا مال ظلم سے یعنی ناروا طور پر بلا استحقاق شرعی کھا جاتے ہیں تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے انگارے بھرتے ہیں اور وہ بہت جلد جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ بلا استحقاق شرعی ایسا کرتے ہیں اور یہی ظلم ہے اگر شرعی حق کے ساتھ ایسا کریں یعنی فقیر ہوں اور اجرت کے طور پر کچھ کھالیں تو اس کا حکم اوپر گزر چکا ہے کہ وہ ناجائز ہے اور جس طرح یتیم کا مال خود کھانا حرام ہے اسی طرح دوسروں کو کھلانا بھی حرام ہے بلکہ اس کے مال سے خیرات کرنا بھی حرام ہے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمارے ہاں عام طور سے لوگ اس بلا میں مبتلا ہیں کہ نابالغوں کا مال بیسویں اور چالیسویں کے نام سے کھاتے اور کھلاتے ہیں اور یہ جو فرمایا کہ آگ کے انگارے پیٹوں میں بھرتے ہیں یہ انجام کے اعتبار سے فرمایا۔ جیسا کہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو کشفی حالات میں دکھایا گیا کہ کچھ لوگ آگ کے انگارے کھا رہے ہیں اور وہی انگارے بگ رہے ہیں آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتامیٰ کا مال ظلماً کھا جاتے تھے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ لوگ اس آیت کو سنکر اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ یتامیٰ کا کھانا پکانا وغیرہ بالکل الگ کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وان تخالطوھم کی آیت نازئی فرمائی جو دوسرے پارے میں گزر چکی ہے اسی لئے ہم نے ظلم کا ترجمہ ناروا اور بلا استحقاق شرعی کیا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے قیامت کے دن یتیم کا مال ناجائز طور پر کھانے والا قبر سے اس حال میں اٹھے گا کہ اس کے منہ سے ناک سے اور کانوں سے آگ کے شعلے نکلتے ہوں گے ہر شخص اس کو دیکھ کر پہچان لے گا کہ یہ ظلم سے یتیم کا مال کھانے والا ہے۔ حضرت ابو برزہ سے بھی ایسی ہی ایک روایت منقول ہے اس میں اتنا اور ہے کہ جب حضور ﷺ نے یہ کیفیت بیان فرمائی تو کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ کون لوگ ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نہیں جانتا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً ابن مردویہ نے نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا دو کمزوروں کا مال کھانے سے پرہیز کر۔ ایک عورت اور ایک یتیم۔ صحیحین میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے کبیرہ گناہ گنوائے تو اس میں یتیم کے مال کا ظلماً کھانا بھی گنوایا۔ ہوسکتا ہے کہ آیت کا تعلق ان لوگوں سے ہو جو یتیموں کو ورثہ نہ دیتے تھے اور اس طرح ان کا مال خورد برد کردیا کرتے تھے۔ جیسا کہ زید بن اسلم نے کہا ہے۔ بہرحال شان نزول کچھ بھی ہو لیکن آیت کا حکم عام ہے۔ اوپر کی آیت میں اہل میراث کا اجمالاً ذکر آیا تھا اگرچہ اس آیت میں ذوی الفروض اور عصبات اور ذوی الارحام کی جانب اشارہ تھا لیکن اب صراحتہً بعض اہل میراث کے حصص کا بیان فرماتے ہیں۔ شریعت میں اس علم کو فرائض کا علم کہاجاتا ہے اور احادیث میں اس علم کی بہت تاکید آئی ہے۔ ان حصص کی مزید تفصیلات توکتب حدیث اور فقہ اور کتب فرائض سے معلوم ہوسکتی ہے لیکن قرآن نے اس رکوع میں اور سورت کے آخری رکوع میں اصلی طور پر بعض مسائل اجمالاً بیان کردیئے ہیں۔ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صورتیں میراث کے متعلق مسلمانوں کو پیش آئی تھیں۔ ان کے متعلق سرکار رسالت مآب سے سوال کیا گیا اور قرآن کریم نے ان کا جواب دیا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top