Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 111
وَ مَنْ یَّكْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا یَكْسِبُهٗ عَلٰى نَفْسِهٖ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّكْسِبْ : کمائے اِثْمًا : گناہ فَاِنَّمَا : تو فقط يَكْسِبُهٗ : وہ کماتا ہے عَلٰي نَفْسِهٖ : اپنی جان پر وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور جو شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنی ہی ذات کے لئے وبال کماتا ہے اور اللہ تعالیٰ کمال علم اور کمال حکمت کا مالک ہے۔4
4 اور جو شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور کوئی گناہ کماتا ہے تو وہ اپنی ہی ذات کے لئے اس کا وبال کماتا ہے اور فقط اپنی ہی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے یعنی اس کی سزا خود اسی کو بھگتنی پڑے گی اور اللہ تعالیٰ کمال علم اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب گناہگار کو گناہ کی سزا بھگتنی ہے اور کوئی دوسرا اس سزا میں شریک نہیں ۔ جیسے فرمایا لاتزر وازرۃ وزراخری تو ایسی حالت میں سزا میں پیشتر توبہ کر کے اس گناہ سے پاک ہو جائو کمال علم کا مطلب یہ ہے کہ سب کے گناہوں کو جانتا ہے۔ کمال حکمت سے مراد یہ ہے کہ سزا سے بچانے کے لئے استغفار کا حکم دیتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی قوم اپنے دل میں آپ شرمندہ نہ رہو کہ ہم کو عیب لگا اور آگے عیب لگنے کے خطرے سے اپنے کی حمایت نہ کرے جب تک تحقیق نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ خبر دار ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے کہ ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں۔ (موضح القرآن) یہ ہوسکتا ہے کہ اس واقعہ میں لوگوں کو مختلف خیال ہوا ہو گناہ گاروں کو گناہ کی فکر ہوئی ہو اور بےعیبوں کو عیب لگنے پر شرمندگی ہوئی ہو یا خود نبی کریم ﷺ کی یہ خواہش ہو کہ جو لوگ غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں ان کو درگذر کیا جائی اور جن پر خواہ مخواہ کا الزام لگا ہے ان کی تلافی ہوجائے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ بہرحال ! دونوں آیتوں میں استغفار کی ترغیب و تحریص اور توبہ کرنے والوں کے لئے معافی کی امیدے اب آگے ان لوگوں کے جرم پر تنبیہہ فرماتے ہیں جنہوں نے چوری تو خود کی اور چوری کی تہمت دوسروں پر لگا دی۔ نیز نبی کریم ﷺ پر جو شفقت و عنایت ہے جس کی وجہ سے آپ اس معاملہ خاص میں غلط فیصلہ کرنے سے محفوظ و مامون رہے اس کا اظہار فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top