Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 120
یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْ١ؕ وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا
يَعِدُھُمْ : وہ ان کو وعدہ دیتا ہے وَيُمَنِّيْهِمْ : اور انہیں امید دلاتا ہے وَمَا يَعِدُھُمُ : اور انہیں وعدے نہیں دیتا الشَّيْطٰنُ : شیطان اِلَّا : مگر غُرُوْرًا : صرف فریب
ا شیطان ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے اور ان کو بےبنیاد آرزئوں میں مبتلا کیا کرتا ہے اور شیطان ان سے جو بھی وعدہ کرتا ہے وہ صرف فریب ہی فریب ہے1
1 اور میں یقینا تیرے بندوں کو صحیح راہ سے گمراہ کر دوں گا اور میں ان کو بےبنیاد امیدوں میں الجھائوں گا تاکہ وہ معاصی میں مبتلا ہوگیا اور میں ان کو یہ بھی تعلیم دوں گا کہ وہ چوپایوں کے کانوں کو چیریں اور کاٹیں اور میں ان کو یہ بھی سکھائوں گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلق میں صورتاً اور ضعتاً تغیر و تبدل کریں اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑیں اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنایا اور دوست تجویز کیا یقین جانو ! وہ صریح نقصان اور کھلے ٹوٹے میں جا پڑا اور وہ کھلا دیوالیہ ہوگیا شیطان ان لوگوں سے غلط وعدے کیا کرتا ہے اور ان کو بےبنیاد آرزئوں اور امیدوں میں مبتلا کیا کرتا ہے اور شیطان ان سے جو وعدہ کرتا ہے اور جو توعقات بھی ان کو دلاتا ہے وہ صرف دھوکہ اور فریب ہے۔ (تیسیر) ضلال اور امانی سے ہر قسم کی گمراہی اور امیدیں دلانا مراد لیا جاسکتا ہے لیکن بعض لوگوں نے اضلال سے مراد اعتقاد کی گمراہی اور تمنیت سے گفاہوں پر امیدیں دلانا مراد لیا ہے۔ حضرت ابن عباس نے امانی کی تفسیر میں توبہ کی تاخیر اور توبہ کو ٹالنا کیا ہے کلبی کا قول ہے کہ امانی کا مطلب یہ ہے کہ نہ دوزخ ہے نہ جنت اور ہ مرنے کے بعد جی اٹھنا بعض نے کہا امانی کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کے ساتھ جنت کی توقع دلائوں گا۔ تبتیک کے معنی ہیں کاٹنا اور پھاڑنا اور چونکہ کفار کا عام طریقہ بھی یہی تھا کہ جانوروں کو اپنے بتوں کے نام پر جب چھوڑتے تھے تو ان کے کان تھوڑے تھوڑے کاٹ دیتے تھے یا بیچ میں سے کان چیر دیا کرتے تھے اور ان کو بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کہتے تھے جس کی تفصیل انشاء اللہ ساتویں پارے میں آجائے گی۔ ہم نے ترجمہ میں دونوں لفظ لکھ دیئے ہیں تغیر فی خلق اللہ بھی عام ہے جس میں ہر قسم کی غیر شرعی تغیر داخل ہے خواہ وہ صورت کی تیغیر ہو مثلاً کسی جانور کی آنکھ پھوڑ دینا یا کسی انسان کا داڑھی منڈانا یا مرد کا عورت کی صورت اور عورت کا مرد کی صورت بنانا بدن کو گدوانا یا کسی جانور اور آدمی کا مثلہ کرنا یا صفت کی تغیر مثلاً چاند سورج کو معبود بنانا یا پتھروں کی عبادت کرنا یا فطرت سلیمہ کو بدلنا یا عورت کا عورت سے بدفعلی کرنا یا مرد کا مرد کو عورت کی جگہ استعمال کرنا وغیرہ یہ سب صورتیں تغیر کو شامل ہیں اسی طرح کسی مرد کو خصی کرنا بلکہ بعض نے تو یہاں تک عموم لیا ہے کہ داڑھی کے خضاب کو بھی شامل کرلیا ہے اور اسی لئے ہمے غیر شرعی تغییر کا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ ختنہ کرانا اور ناخن کتروانا اور بڑھی ہوئی داڑھی کو شرعی حد تک کتروانا اور شرعی طور پر خضاب وغیرہ کی چیزیں اس تغییر میں داخل نہ ہوں اور اس تغییر سے وہی تفسیر مراد لی جائے جو شریعت میں ناجائز ہے ہم نے امانی میں جو بےبنیاد کی قید لگائی ہے اس کا منشا بھی یہی ہے کہ شیطان کی وہ تمام توقعات جو وہ دلاتا ہے وہ محض بےبنیاد اور محض سراب ہوتی ہیں۔ غرور کے معنی ہیں دھوکہ، فریب، دغا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام وعدے بظاہر نفع کے ہوتے ہیں لیکن وہ ضرر محض ہوتے ہیں اس لئے اس کے وعدہ کو فریب فرمایا۔ اضلال اور امانی کی جو تفسیر ہم نے کی ہے اس میں ہر قسم کے گناہ آجاتے ہیں خواہ وہ عقائد کے ہوں یا اعمال کے خواہ وہ کفر یہ عقائد و اعمال ہوں خواہ وہ فاسقانہ اعمال ہوں۔ غرض ! یعدھم ویمنیھم اور ولا ضلنھم میں شیطان کے وہ تمام مکائد اور وساوس اور اس کی تمام سیہ کاریاں داخل ہیں جو بنی آدم کی تباہی اور نقصان کا موجب ہیں۔ حضرت شاہ صاحب مبینا پر فرماتے ہیں جانوروں کے کان چیریں یہ کافروں کا دسوتر تھا گائے کا یا بکری کا ایک بچہ بت کے نام کردیا اس کے کان میں نشان ڈال دیتے اور صورت بدلنا یہ کہ لڑکے کے سر میں پوٹی رکھتے بت کے نام کی مسلمانوں کو ان کاموں سے بچنا ضرور ہے اپنے بزرگوں سے یہ معاملت نہ کرے کافر بھی جن سے کرتے تھے بزرگ ہی جان کر کرتے تھے۔ (موضح القرآن) اب آگے شیطان کے وعدوں پر یقین کرنے والوں اور اس کی امید دلانے پر بھروسہ رکھنے والوں کا انجام بیان فرماتے ہیں اور شیطان کے متبعین کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرماتے ہیں جو اہل ایمان ہیں اور یہ قرآن کریم کا عام قاعدہ ہے کہ مشرک اور بد اطوار لوگوں کے ذکر کے ساتھ نیک بندوں کا ذکر بھی کرتا ہے تاکہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رہیں اور احکام کا ہر پہلو پیش نظر رہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ تاکہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رہیں اور احکام کا ہر پہلو پیش نظر رہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔
Top