Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 126
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا۠   ۧ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز مُّحِيْطًا : احاطہ کیے ہوئے
اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے2
2 اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (تیسیر) مطلب وہی ہے جو ہم اوپر عرض کرچکے ہیں ایک حصہ میں اللہ تعالیٰ کی سلطنت اور اس کی مالکیت کا اعلان ہے اور دوسرے حصہ میں اس کے علم اور اس کی قدرت کا اعلان ہے اور یہی دو باتیں بندے کے لئے اس کی عبادت و اطاعت کا موجب ہیں غالباً یاد ہوگا کہ سورة نساء کی ابتداء میں یتیم بچوں کے سلسلے میں بعض احکام و مسائل فرمائے تھے کیونکہ لوگ یتیم بچوں کے بارے میں کوتاہی کرتے تھے اگر کوئی یتیم لڑکی خوبصورت اور مالدار ہوتی اور اتفاقاً اس کا ولی ایسا ہوتا جس سے نکاح جائز ہوتا۔ مثلاً چچا زاد بھائی تو ولی اس سے نکاح کرلیتا مگر مہر پورا مقرر نہ کرتا اور اگر کوئی لڑکی بدصورت ہوتی تو اس سے نہ خود نکاح کرتا اور اس خوف سے کہ اس کی دولت کہیں اور چلی جائے گی اس کا نکاح کسی دوسری جگہ بھی نہ کرتا اور اس سے نفرت کرتا۔ بعض لوگ عورت کی میاث ہی نہ دیتے تھے بعض عورت کو تنگک رنے کی غرض سے قید رکھتے تھے تاکہ وہ اپنا مال چھوڑ دے اور اپنا پیچھا چھڑا لے۔ غرض ! ان تمام باتوں کی اصلاح اور ان کی روک تھام کے لئے اس سورت کی ابتداء میں احکام بیان فرمائے تھے۔ چناچہ ان ہی باتوں کے متعلق بعض لوگوں نے مختلف سوال کئے تھے جن کا جواب آگے مذکور ہے۔ مثلاً پہلے یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے کی ممانعت فرمائی تھی اب لوگوں کو خیال ہوا کہ غیر سے نکاح کرنے کی بجائے دلی اگر نکاح کرے تو کم از کم یتیمیہ کی دیکھ بھال صحیح ہوگی اور بعض کو یہ واقعہ پیش آیا کہ بدصورتی کی وجہ سے خود تو لڑکی سے نکاح نہ کیا اور مال نکل جانے کے خوف سے کہیں دوسری جگہ بھی نکاح نہ کیا اس بارے میں بعض لوگوں نے سوال کیا اور چونکہ پسندیدہ عورت کے ساتھ نکاح کرنے میں پورا مہر دینے کا حکم تھا اس لئے شاید بعض لوگوں نے یتیمہ سے کہہ سن کر کم کرانے کی کوشش کی ہے اس پر سوال ہوا ہو کہ اگر یتیمہ خود کم مہر پر اضی ہوجائے تب تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ غرض ! اسی قسم کے سوالات کا آگے جواب مذکور ہے اور گزشتہ احکام کا اعادہ ہے کہ جو حکم ہم دے چکے ہیں اس میں تمہارا اور یتامیٰ کا فائدہ اور احتیاط ہے اور انہی احکام سابقہ پر توجہدلانے کے ساتھ عورتوں کے بعض اور مسائل بھی ارشاد فرمائے۔ چناچہ ارشاد ہتا ہے۔ (تسہیل)
Top