Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 132
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَ : اور لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اور جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں ان سب کا مالک اللہ ہی ہے اور کارسازی کے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے۔3
3 اور اگر دونوں میاں بیوی میں اتفاق اور صلح کی کوئی شکل نہ نکلے اور وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہی ہوجائیں یعنی چھوٹ چھٹائو ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنی کشائش اور وسعت قدرت کی برکت سے ہر ایک کو دوسرے سے بےنیاز اور مستغنی کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا صاحب وسعت اور بڑی حکمت والا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو چیزیں زمین میں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک اور اسی کی مملوک ہیں اور یقینا جن لوگوں کو ہم نے تم سے پہلے کتاب دی تھی ان کو بھی یہ حکم دیا تھا اور تم کو بھی یہی حکم دیا ہے کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور نیز یہ کہ اگر تم کفر کی روش اختیار کرو گے اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور ناسپاسی کرو گے … تو یقین جانو کہ جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی ملک اور اسی کی مملوک ہیں اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور کسی کی اطاعت و عبادت کا محتاج نہیں ہے اور تمام صفات محمودہ سے متصف ہے اور جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک اور اسی کی مملوک ہیں اور اللہ تعالیٰ با عتبار کار ساز ہونے کے کافی ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی اگر باہم صلح نہ کرسکیں اور تفریق کی نوبت آجائے اور خلع و طلاق ہوجائے تو دونوں میاں بیوی میں سے کسی کو یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ میرے بغیر دوسرے کا کام نہیں چل سکے گا یعنی بیوی یہ نہ سمجھے کہ میرے بغیر مرد کا کام نہیں چلے گا۔ اور خاوند یہ نہ سمجھے کہ میرے بغیر بیوی کا کام نہیں چلے گا اس خیال سے بچنے کی غرض سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک میاں بیوی کو اپنی وسعت قدرت کی برکت سے مستغنی فرما دے گا اور ایک کو دوسرے کی احتیاج نہ ہوگی اور ایک دوسرے کا محتاج نہ رہے گا اور ایک کا کام دوسرے پر موقوف نہ رہے گا۔ پھر بطور استدلال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بڑا صاحب وسعت ہے اور اپنی قدرت کاملہ سے ہر ایک کام چلاتا ہے اور وہ بڑی حکمت والا ہے اپنی حکمت بالغہ سے اگر کسی پر ایک دروازہ بند کرتا ہے تو دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے۔ پھر اپنی وسعت قدرت کو ان الفاظ میں ظاہر کیا کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات پر اس کی فرماں روائی ہے وہ سب کا مالک ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اوپر کی آیتوں میں بعض باتوں کا حکم دیا تھا اور بعض باتوں سے منع فرمایا تھا اس لئے اپنی مالکیت کا اعلان فرمایا کہ جب تمام مخلوق ہماری مملوک ہے تو جو حکم ہم دیں اس کی تعمیل کرو اور جس بات سے روک دیں اس سے باز رہو۔ اس لئے فرمایا کہ تم سے پہلے جو لوگ اہل کتاب تھے ہم نے ا ن کو بھی یہی حکم دیا تھا اور تم کو بھی یہی حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے احکام کی بجا آوری اور اس کے احکام کی تعمیل کرو اور اگر تم ایسا نہ کرو گے اور احکام کی مخالفت پر آمادہ ہو گے تو آسمان و زمین کی تمام چیزوں پر اس کی حکومت ہے اس کا کیا نقصان ہوسکتا ہے وہ کسی کی اطاعت کا محتاج اور کسی کی عبادت کا ضرورت مند نہیں ہے وہ تمام صفات کمالیہ اور صفات محمودہ سے متصف ہے بلکہ جو شخص نا سپاسی اور نافرمانی کرے گا اسی کو نقصان اور ضرر پہنچے گا کیونکہ آسمان اور زمین کی تمام اشیاء کا وہی مالک ہے اور سب چیزیں اسی کی مملوک ہیں اور وہی اپنی مخلوق کا کار ساز ہے تو ایسے مالک اور کار ساز کی اطاعت کرنے سے مملوک کا فائدہ اور مالک کی مخالفت کرنے سے مملوک ہی کا نقصان ہے، لہٰذا اس کی مخالفت سے ڈرنا چاہئے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی کرنے چاہئے۔ بعض لوگوں نے وکفی بربک وکیلا کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ میاں بیوی میں مفارقت ہوجائے تو گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کا کار ساز ہے۔ بعض حضرات نے اور بھی کئی طرح مطلب بیان کیا ہے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں تین بار فرمایا کہ اللہ کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے پہلی بار کشائش کا بیان ہے دوسری بار بےپروائی کا اگر تم منکر ہو ۔ تیسری بار کا سازی کا اگر تم تقویٰ پکڑو۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب کی مراد یہ ہے کہ اوپر تین باتوں کا ذکر ہے ایک بیان میاں بیوی کی تفریق کا دوسرے تقویٰ کا تیسرے کفر کی برائی کا اور تینوں باتوں پر اللہ تعالیٰ نے علیحدہ علیحدہ اپنی مالکیت اور اپنی حکومت کا اظہار کیا ہے۔ آگے اسی حکومت اور قدرت کا دور سے عنوان سے اظہار فرماتا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے (تسہیل)
Top