Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 134
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ ثَوَابَ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۠   ۧ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے ثَوَابَ الدُّنْيَا : دنیا کا ثواب فَعِنْدَ اللّٰهِ : تو اللہ کے پاس ثَوَابُ : ثواب الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
جو شخص صرف دنیا کے انعام کی خواہش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے پاس دنیا و آخرت دونوں کا انعام موجود ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے1
1 اگر وہ چاہے تو اے لوگو تم سب کو ایک ہی دفعہ معدوم کر دے اور تم سب کو فنا کر دے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لا موجود کرے اور کسی دوسری مخلوق کو تمہاری جگہ لے آئے اور یہ تمہارا فنا کردینا اور دوسروں کو تمہاری جگہ لے آنا اس پر اللہ تعالیٰ کو پوری قدرت حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ ایسا کرنے پر قادر ہے اور دیکھو جو شخص صرف دنیا کا معاوضہ اور دنیا کا انعام چاہتا ہے تو وہ غلطی کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو دنیا اور آخرت دونوں کا معاوضہ اور انعام موجود ہے تو ایسی حالت میں اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ پر کیوں قناعت کرے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہر اعتبار سے مستغنی اور بےنیاز ہے اور وہ کسی کی اطاعت اور عبادت کا محتاج نہیں ہے جو بندہ عبادت کرتا ہے اور اس کی اطاعت بجا لاتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے اور نفع کو ایسا کرتا ہے لہٰذا تم اس کی اطاعت کو غنیمت سمجھو کہ اس نے تم کو اپنے کام میں لگا رکھا ہے ورنہ وہ تو اس پر بھی قادر ہے کہ تم سب کو یہ بیک وقت فنا کر دے اور تمہاری جگہ اور مخلوق کو لا بسائے اور ان کو اپنے کام میں لگا دے اور وہ مخلوق اس کے احکام کی بجائے آوری میں مشغول ہوجائے اور جب یہ عبادت و اطاعت کا کام دوسروں کے سپرد کیا جاسکتا ہے تو تم اپنی سعادت سمجھو کہ یہ کام تم سے لیا جا رہا ہے اس شفقت آمیز تنبیہہ کے بعد ایک اور بات تعلیم فرمائی کہ دیکھو جو اطاعت کرو اور جو حکم بجا لائو اس میں آخرت کے ثواب کا خیال کیا کرو اور صرف دنیوی منافع کا خیال نہ کیا کرو دین کے کاموں کا ثواب فقط دنیا میں طلب کرنا بڑی کمزوری اور غلطی کی بات ہے اور اس کا یہ مطلب نہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس معاوضہ اور ثواب نہیں ہے اس کے پاس تو دنیا اور آخرت دونوں کا انعام موجود ہے کوئی شخص اپنی غلطی سے دنیا میں لینا چاہے تو یہ لینے والے کا نقصان ہے اس لئے طلب کرنے والے کو آخرت کے انعام کی توقع کرنی چاہئے کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ آخرت کا ثواب چاہنے والوں کو تو دنیا اور آخرت دونوں میں انعام ملتا ہے اور فقط دنیا کے خواستگاروں کو آخرت میں محرومی ہوتی ہے اس لئے بہترین تہذیب سکھائی۔ اسی قسم کے مضمون کی آیت چوتھے پارے میں بھی گذر چکی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی غایت و شفقت اور مہربانی ہے کہ احکام کی بجائیآوری کے ساتھ انعام مانگنے کا بھی طریقہ تعلیم فرمایا۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے ا کہ آیت ان یشا یذھبکم سے مشرکین اور منافقین مراد ہیں۔ بعض مفسرین نے آیت کو عام رکھا ہے۔ وکان اللہ سمیعاً بصیرا کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک شخص کی درخواست کو خواہ وہ دنیا کے لئے ہو یا دین کے لئے سنتا ہے اور ہر شخص کے اعمال کو اور ہر شخص کی نیت کو دیکھتا ہے۔ دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ موجودہ تمام مخلوق کو فنا کردینے اور اس کی جگہ دوسری مخلوق کو موجود کردینے پر قادر ہے خواہ وہ مخلوق بشر ہو یا فرشتے ہوں بہرحال ! وہ تم سے اطاعت کرنے میں بہتر ہوگی اور تم جیسی نہ ہوگی۔ جیسا کہ سورة محمد ﷺ میں ہے وان تتولو ایستبدل قوماً غیر کم ثم لایکونوا اشالکم اللہ تعالیٰ اس قسم کے انقلاب پر پوری طرح قادر ہے ۔ اگرچہ قوموں کی الٹ پلٹ ہمیشہ ہوتی رہتی ہے جیسا کہ آٹھویں پارے میں ہے۔ کما انشاکم من ذریۃ قوم اخرین اوپر کے لوگ مرتے جاتے ہیں اور ان کی جگہ نوجوان لیتے رہتے ہیں لیکن یہاں یکبارگی کسی قوم کا استیصال مراد ہے۔ دنیا کے معاوضہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاد میں مثلاً صرف غنیمت مقصود ہو یا اور کسی نیک کام کا بدلا دنیا ہی میں حاصل کرنا مقصود ہو تو اللہ تعالیٰ کی قدرت میں دونوں باتیں موجود ہیں لیکن مسلمان کو چاہئے کہ اعلیٰ درجہ کی چیز کو چھوڑ کر ادنیٰ درجہ کی چیز کو اختیار نہ کرے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی سب مل کر شرع پر قائم رہو تو اللہ تعالیٰ دنیا بھی دے اور آخرت بھی (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب کا مقصد بھی یہ ہے کہ نیت نیک رکھو دنیا کی دولت اور شہرت وغیرہ کی آرزو نہ کرو اگر نیت نیک ہوگی تو اللہ تعالیٰ دنیوی خواہش بھی پوری کر دے گا اور آخرت میں بھی اجر عطا فرمائے گا اوپر سے مختلف احکام کا بیان ہو رہا ہے کچھ عبادات کا بیان تھا کچھ معاملات کا بیان تھا اسی میں طمعمہ اور بشیر کا ذکر ہوا معاملات میں چونکہ فیصلہ کرنیوالوں کو اور گواہوں کو اور خود صاحب معاملہ کو عدل و انصاف کی ضرورت ہے اس لئے آگے اس کا ذکر فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top