Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 137
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ یَكُنِ اللّٰهُ لِیَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِیَهْدِیَهُمْ سَبِیْلًاؕ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے ثُمَّ كَفَرُوْا : پھر کافر ہوئے وہ ثُمَّ : پھر اٰمَنُوْا : ایمان لائے ثُمَّ كَفَرُوْا : پھر کافر ہوئے ثُمَّ : پھر ازْدَادُوْا كُفْرًا : بڑھتے رہے کفر میں لَّمْ يَكُنِ : نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيَغْفِرَ : کہ بخشدے لَھُمْ : انہیں وَ : اور لَا لِيَهْدِيَھُمْ : نہ دکھائے گا سَبِيْلًا : راہ
بلاشبہ جو لوگ مسلمان ہوئے پھر کافر ہوگئے پھر مسلمان ہوئے پھر کافر ہوگئے پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ ان کی رہنمائی فرمائے گا ۔2
2 بلاشبہ جو لوگ مسلمان ہوئے پھر مسلمان ہونے کے بعد کافر ہوگئے۔ کافر ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگئے مسلمان ہونے کے بعد پھر کافر ہوگئے پھر اپنے کفر میں بڑھتے اور زیادہ ہوتے چلے گئے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ ان کی مقصود تک پہونچنے میں رہنمائی فرمائے گا۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اگر ارتداد کے بعد تائب ہوجائیں اور نادم ہو کر ایمان لے آئیں تو بہرحال ایمان قبول ہوگا اور اگر ارتداد کے بعد کوئی ایمان نہ لائے اور ارتداد ہی پر مرجائے تو نہ اس کی مغفرت اور نہ اس کی مقصود تک رہنمائی یعنی جنت میں جانے کا راستہ دکھایا جائے گا اگرچہ ایک دفعہ مرتد ہو کر کوئی ارتداد پر قائم رہے تب بھی یہی سزا ہے اور کوئی بار بار ایمان لائے بار بار مرتد ہو تب بھی یہی سزا ہے لیکن یہاں دو دفعہ ایمان و کفر کا ذکر محض اس لئے کیا کہ کوئی واقعہ اسی طرح پیش آیا ہوگا اور کچھ لوگوں نے ایسا کیا ہوگا اس لئے نزول میں اس کی طرف اشارہ ہے ورنہ دوسری مرتبہ ثم کفروا کہنا کوئی قید نہیں ہے اور جس طرح ایک بار مرتد ہو کر ارتداد پر قائم رہنے کی یہی سزا ہے اسیط رح ہر ارتداد کے بعد نادم ہوجانے اور توبہ کرلینے پر مغفرت کی توقع ہے۔ بہرحال ! خلاصہ یہ ہے کہ آیت میں دو مرتبہ ایمان و کفر کا ذکر بطور قید نہیں ہے بلکہ واقعہ کے طور پر ہے جو نزول آیت کے وقت پیش آیا تھا۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اس سے یہود مراد ہیں کہ پہلے موسیٰ پر ایمان لائے پھر بچھڑا پوج کر مرتد ہوئے پھر توریت پر ایمان لائے پھر عیسیٰ کے ساتھ کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ محمد ﷺ کے ساتھ کفر کیا۔ بعض حضرات نے کہا کہ اس سے تمام اہل کتاب مراد ہیں کہ ایک نبی پر ایمان لاتے اور دوسرے نبی کے ساتھ کفر کرتے اور یہاں تک کفر میں بڑھتے رہے کہ نبی آخر الزاماں حضرت محمد ﷺ کے ساتھ بھی کفر کیا اور آخر میں جو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی نہ مغفرت کرے گا نہ ان کو راستہ دکھائے گا تو اس کا مطلب بعض لوگوں نے حضرت علی سے یہ نقل کیا ہے کہ ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی لیکن صحیح چیز وہی ہے جو ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ مرتد ہونے کے بعد کفر پر قائم رہے اور کفر میں بڑھتے رہے یہاں تک کہ کفر پر مرگئے۔ حضرت مجاہد نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ حضرت علی کا جو قول ہم نے نقل کیا ہے شاید اس کا مطلب یہ ہو کہ ایسے بدبخت کو جس نے ایمان اور کف کو ایک مذاق بنا رکھا ہے اس کو توبہ کی توفیق نصیب نہ ہوگی۔ اس کا کفر اور اس کا طغیان او استہزا بالدین اس کے لئے پردہ اور گمراہی کا موجب ہوجائے گا اور اس کو صحیح راہ اور حق کا راستہ ملنے کی توفیق نہ دی جائے گی اور وہ مغفرت سے محروم رہے گا یعنی لم یکن اللہ غافر الھم والاھادیھم سبیلا (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ظاہر میں مسلمان رہے اور دل پھٹکتے رہے تو اگر آخر کو بےیقین مرے تو کافر کے برابر ہیں ان کو بخشش نہیں اور ظاہر کی مسلمانی سے وہاں راہ نہ ملے گی۔ شاید ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب ان آیات کا تعلق صرف منافقین سے بیان کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ بعض حضرات نے اختیار کیا ہے (واللہ اعلم) بہرحال پہلی آیت میں ایمان کی تفصیل تھی اور ایمان مفصل کا بیان تھا اور تفصیلی چیزوں پر اعتقاد رکھنے اور ایمان لانے کا ذکر تھا اس کے بعد مرتدین کا ذکر فرمایا اب آگے منافقین کا ذکر فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top