Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 151
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا١ۚ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع) حَقًّا : اصل وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا ہے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب مُّهِيْنًا : ذلت کا
تو ایسے لوگ یقینا کافر ہیں اور کافروں کے لئے ہم نے ذلیل و رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے2
2 بلاشبہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ با اعتبار ایمان لانے کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کریں چناچہ وہ اپنی اس خواہش کا زبان سے اظہار بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبروں میں سے ہم بعض کو تو مانتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں اور بعضوں کو ہم نہیں مانتے اور یہ لوگ یوں چاہتے ہیں کہ کفر اور ایمان کے بین بین کوئی راہ اختیار کرلیں اور کفر و ایمان کے درمیان ایک ایسا راستہ نکال لیں جو نہ خالص کفر ہو اور نہ خالص ایمان ہو یعنی مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان ایک نئی راہ تجویز کرنا چاہتے ہیں تو ایسے لوگ یقینا کافر ہیں اور اصل کافر یہی لوگ ہیں اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز اور ذلیل و رسوا کن سزا تیار کر رکھی ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہاں سے ذکر ہے یہود کا قرآن میں اکثر ذکر یہود کا اور منافقین کا ایک جا آیا ہے اس جگہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ کا ماننا یہی ہے کہ زمانے کے پیغمبر کا حکم مانے اس بغیر الل کا ماننا غلط ہے۔ (موضح القرآن) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو مان ک اس کی شان میں تخفیف کے مرتکب ہوتے ہیں او ور اس کو ایسی صفات کے ساتھ متصف کرتے ہیں جن سے اس کی ذات بالا اور برتر ہے رسولوں کے ساتھ کفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے رسول ہونے کا انکار کرتے ہیں جیسے یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کے منکر تھے یا اس اعتبار سے کہ بعض رسولوں کا انکار مستلزم ہے سب رسولوں کے انکار کو اللہ اور اس کے رسولوں میں تفریق ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ بعض پر ایمان لائیں اور بعض پر نہ لائیں اللہ پر ایمان لانا اور اس کے رسول میں جدائی ڈالنا اسی کو تفریق بین اللہ وسلہ فرمایا یا یہ مطلب کہ جب بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں تو اللہ تعالیٰ کے بعض احکام کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں اس کو فرمایا ویریدون ان یفر قوابین اللہ ورسلہ چناچہ اپنے اس عقیدے کو زبان سے بھی کہتے ہیں کہ ہم بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔ ظاہر ہے کہ اس عقیدے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی کفر لازم آیا اور سب رسولوں کے ساتھ بھی کفر لازم آیا کیونکہ ہر رسول دوسرے رسولوں کو رسول کہتا چلا آیا ہے جب بعض کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ کی بھی تکذیب ہوئی اور ہر رسول کی تکذیب ہوئی حقاً مضمون جملہ کی تاکید ہے اس لئے ہم نے مترجمین کے الفاظ کی رعایا رکھتے ہوئے تیسیر میں ترجمہ کیا ہے مھینا اہانت سے ہے رسوا کن ترجمہ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب کا ہے۔ بین ذلک سبیلا کو ہم نے تیسیر میں صاف کردیا ہے گویا ان کا بعض پر ایمان لانا اور بعض سے انکار کرنا ایمان و کفر کے مابین ایک راہ کا اختیار کرنا ہے ۔ نہ مسلمانوں کا سا ایمان کہ سب کو مانیں اور نہ مشرکوں کا سا کفر کہ کسی رسول کو نہ مانیں۔ قرآن کی یہ آیت اس معاملہ میں بالکل صاف اور واضح ہے اور کسی ایک پیغمبر کے انکار کو بھی کفر بتاتی ہے شاید یاد ہوگا کہ ہم نے پہلے پارہ میں ان الذین امنوا والذین ھادوا کی تسہیل میں بتایا تھا کہ اگر اس آیت میں محمد ﷺ پر ایمان لانے کا ذکر نہیں ہے تو اس کو یہ مستلزم نہیں ہے کہ حضور ﷺ پر ایمان لائے بغیر کوئی نجات یافتہ ہوسکتا ہے خواہ توحید الٰہی ہو خواہ اعمال صالحہ ہوں۔ یا قیامت پر ایمان لانا ہو یہ سب باتیں پیغمبر کی رہنمائی کی محتاج ہیں جو شخص یہ چاہے کہ میں پیغمبر کو نظر انداز کر کے نجات کی صحیح راہ معلوم کرلوں تو یہ کھلا کفر ہے۔ اب چھٹے پارے کی اس آیت کو سامنے رکھ کر اس آیت کی تفسیر کرنی چاہئے اور آج کل جدت پسند لوگوں کے خیال سے اجتناب کرنا چاہئے جنہوں نے قرآن کریم کی تفسیر میں بڑی جرأت اور بےباکی اور بےباکی سے کام لیا ہے ۔ قرآن کریم سب باتیں ایک ہی آیت میں بیان نہیں کردیا کرتا اس لئے تفسیر کرتے وقت سب آیتوں کا لحاظ رکھنا چاہئے جب قرآن بعض رسولوں کے ماننے اور بعض کے نہ ماننے کو کفر بتارہا ہے تو خاتم النبین ﷺ کے نہ ماننے والے کس طرح نجات دائمی اور فلہم اجرھم عندربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یخزنون کے مستحق ہوسکتے ہیں۔ پیغمبر پر ایمان لانا تو قانون کی ایک بنیادی دفعہ ہے اگر قانون کی دوسری دفعات میں اس کا ذکر نہ آئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جنرل اور بنیادی دفعہ ترک کردی گئی ہے آگے کی آیت میں طرفین کے عہدے کا اظہار ہے پھر اس کے بعد یہود کی حرکات قبیحہ کا ذکر ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ (تسہیل)
Top