Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 158
بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
بَلْ : بلکہ رَّفَعَهُ : اس کو اٹھا لیا اللّٰهُ : اللہ اِلَيْهِ : اپنی طرف وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
بلکہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ بڑی قوت اور بڑی حکمت کا مالک ہے ۔1
1 آخر کار جب یہ لوگ اپنی نافرمانیوں سے بعض نہ آئے تو ہم نے ان کی عہد شکنی اور احکام الٰہی کے ساتھ ان کے کفر وا نکار کرنے اور انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کرنے کے باعث جو کہ ان کے نزدیک بھی ناحق اور ناروا تھا مختلف سزائوں میں ان کو مبتلا کیا اور نیز ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہمارے دل ایسے محفوظ ہیں کہ ان میں اسلام کی کوئی بات اثر و نفوذ ہی نہیں کرسکتی۔ نہیں یہ بات نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی کافرانہ روش کے باعث ان کے دلوں پر مہر کردی ہے اور بند لگا دیا ہے لہٰذا وہ ایمان نہ لائیں گے مگر بہت کم اور ہم نے ان کو مختلف سزائوں میں ان کے کفر کی وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ انہوں نے حضرت مریم پر بڑے بہتان کی بات دھری مبتلا کیا اور نیز ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم کو جو اللہ کا رسول تھا قتل کر ڈالا۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ نہ تو یہود نے حضرت عیسیٰ کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی دیا اور نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو اشتباہ ہوگیا اور ان پر واقعہ کی حقیقت مشتبہ ہوگئی اور جو لوگ اہل کتاب میں سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اور جو یہود و نصاریٰ ان کے بارے میں مختلف باتیں کہتے ہیں وہ دراصل اس کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں اور غلط خیالی میں مبتلا ہیں ان شک کرنے والوں کے پاس سوائے تخمینی اور ظنی باتوں کی پیروی کرنے کے اور کوئی صحیح علم اور صحیح دلیل نہیں ہے اور یہود نے یقینا حضرت عیسیٰ کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پانی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے کہ اس نے اپنی قوت کے بل پر یہود کے ہاتھ سے عیسیٰ کو بچا لیا اور اپنی حکمت بالغہ کی وجہ سے ان کو آسمان پر رکھا اور زمین پر نہ چھوڑا۔ (تیسیر) آیت میں ان تمام اسباب و علل کا ذکر فرمایا ہے جن کی وجہ سے مددگار یہود مختلف سزائوں میں گرفتار کئے گئے تھے وہ مختلف سزائیں سورة بقرہ میں گذر چکی ہیں اور ان کا ذکر سورة مائدہ میں بھی انشاء اللہ آئے گا جیسے مسخ، لعنت و پھٹکار مسکنت و ذلت غضب الٰہی وغیرہ ان سزائوں کے اسباب میں سے بعض یہاں مذکور ہیں اور بعض اور آگے بیان ہوں گے نقص عہد تو ان کا عام شیوہ تھا۔ عہد سے مراد یا تو وہ عود میں جو بار بار حضرت موسیٰ سے کیا کرتے تھے یا توریت کے احکام کی طرف اشارہ ہے اور یاد ہی فطری عہد ہے کہ ہر انسان محسن اور خالق کی فرمانبرداری پر فطرتاً پابند ہے اگرچہ نقص عہد اتنا جامع لفظ ہے کہ باقی امور سب اس میں داخل ہیں کیونکہ ہر گناہ اور ہر نافرمانی نقص عہد ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو علیحدہ علیحدہ بھی بیان فرمایا جن سے ان کے نقص عہد کی تفصیلات اچھی طرح ظاہر ہوگئیں اور ان کا کفر و فسق اچھی طرح نمایاں ہوگیا۔ ایات اللہ کے منکر احکام الٰہی کا انکار کریں احکام کے ساتھ کفر کریں اور کہیں کہ فلاں حکم نہیں مانتے انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ یہ برتائو کہ ان کے کفر سے بڑھتے بڑھتے ان کو قتل تک کر ڈالتے اور قتل بھی یہ سمجھتے ہوئے کرتے کہ انبیاء کا قتل کرنا حرام اور ناحق ہے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ان کو یہ معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کو قتل کرنا حرام ہے مگر چونکہ بےباکی اور جرأت حد سے بڑھی ہوئی تھی اس لئے ناحق جانتے ہوئے بھی ابنیاء کو قتل کردیا کرتے تھے غلف کا مطلب ہم اوپر عرض کرچکے ہیں استہزاء کہا کرتے تھے کہ ہمایر قلوب اقلف ہیں یعنی غیر ختنہ شدہ ہر قسم کی ظاہری آلائش اور خاک وباء وغیرہ سے بالکل محفوظ ہیں۔ لہٰذا ان پ اسلامی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں اور وہ اسلام کی خرابیوں سے محفوظ و معئون رہتے ہیں حضرت حق نے بطور اعراض جواب فرمایا کہ ان کے قلب کچھ قدرتی طور پر پردوں سے ڈھکے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مسلسل نافرمانیوں اور ان کے کفر پیہم کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے کہ اب امر حق اس مہر کی وجہ سے ان کے قلوب تک پہونچ ہی نہیں سکتا اور یہی وہ سزا کا آخری حصہ ہے جو دنیا ہی میں شروع ہوجاتا ہے اور مریض کی یہی وہ حالت ہے کہ جب طبیب اس کے علاج سے دست کش ہوجاتا ہے اور غلف کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے قلوب علوم سے اس قدر لبریز ہیں کہ ان میں کوئی دوسرا علم داخل ہی نہیں ہوسکتا جس طرح بھرے ہوئے برتن میں کوئی چیز نہیں ڈالی جاسکتی۔ بہرحال ! مقصد اسلام سے بےقراری اور بےاعتنائی کا اظہار تھا اور اسی کا جواب ہے بل طبع اللہ علیھا بکفر ھم اور جب حالتیہ ہے کہ قلوب پر حضرت حق کی جانب سے مہر لگا دی گئی ہے تو اب ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت کم یعنی بہت تھوڑے آدمی جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی یا یہ مطلب کہ بعض باتوں پر ایمان لائیں گے اور بعض پر نہیں لائیں گے یا بعض رسولوں کو مانیں گے اور بعض کو نہیں مانیں گے یا نہیں غیر معتبر جس کے باعث کسی کو مومن نہیں کہا جاسکتا ان کفریات کے علاوہ ان کے ایک اور مخصوص کفر کا ذکر فرمایا کہ ان کا بڑا کفر و ہ قول ہے جو انہوں نے حضرت مریم جیسی پاک دامن عورت پر دھر دیا اور ان کی طرف ایسے ناپاک فعل کی نسبت کی جس سے ان کی شان بہت بلند تھی۔ پھر ضحرت مریم پر بہتان لگانے کے بعد اس بات کا بھی دعویٰ کیا اور فخراً اس کا اظہار کیا کہ ہم نے مسیح کو جو عیسیٰ بن مریم تھا اس کو قتل کر ڈالا۔ رسول اللہ یا تو یہود کا ہی قول ہے جو انہوں نے استہزاء کہا ہے کہ وہ مسیح عیسیٰ ابن مریم جو رسول اللہ ہونے کا مدعی تھا ہم نے اس تک کو قتل کر ڈالا یا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہو اور ان کے کفر کا مزید اظہار ہو کر اس شخص کے قتل کا ذکر تفاخراً کرتے ہیں جو رسول اللہ تھا اول تو حضرت مریم پر بہتان لگانا ہی حضرت عیسیٰ کی تکذیب تھی کیوں کہ حضرت عیسیٰ اپنے معجزے سے ان کی برأت فرما چکے تھے پھر حضرت عیسیٰ کی عداوت و روشنی جو ایک مستقل کفر ہے پھر نبی کا قتل اور دعوائے قتل یہ سب امور کفر یہ ہیں حضرت حق تعالیٰ نے اس قتل کے ادعاً کار د فرمایا اور ارشاد ہوا کہ نہ انہوں نے اس کو قتل کیا اور نہ سولی دیا نہ سولی پر چڑھایا یعنی سولی دینا تو کیسا اس کو سولی پر چڑھایا تک نہیں لیکن ان کو خود اشتباہ ہوگیا اور حقیقت واقع ان پر مشتبہ ہوگئی شبہ لھم میں لوگوں نے کئی قول بیان کئے ہیں کسی نے کہا عیسیٰ ان پر مشتبہ ہوگیا کسی نے کہا مقتول مشتبہ ہوگیا۔ ہم نے زمخشری کی ترکیب پسند کی ہے یعنی وقع لھم التشبیہ چونکہ واقعہ کا تعلق مختلف لوگوں سے ہے مثلاًحضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور وہ شخص جس کو یہ مسیح سمجھ کر لائے اور اس کو سولی دی اور خود وہ لوگ جو یہودی حکومت کے ذمہ دار تھے اور جن کا حکم چلنا تھا پھر حضرت مسیح کے وہ منافق اور مخلص شاگرد جو رات بھر ان سے محاصرے کی حالت میں باتیں کرتے رہے اس لئے مفسرین کے اقوال مختلف ہوگئے ہم نے تفسیر میں ایک ایسی صورت اختیار کرلی جو سب کو جامع اور مدعا کے اعتبار سے صاف ہی اور اسی اشتباہ کی وجہ سے لوگ ایسے شک میں مبتلا ہوئے کہ آج تک ان کو کوئی صحیح راہ نہ مل سکی اختلاف کرنے والوں سے مراد عیسائی ہیں کیونکہ عیسائیوں میں بھی اس مسئلے کے متعلق باہم سخت اختلاف ہے ایک فرقہ اس کا قائل ہے کہ مسیح خدا تھا جب تک اس کا جی چاہا ہم میں رہا اور جب اس کا جی چاہا ہم سے چلا گیا کوئی کہتا ہے وہ خدا کا بیٹا تھا جب تک اس نے چاہا اس کو ہم میں رکھا اور جب چاہا اٹھا لیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اختلاف کرنے والے صرف یہود ہوں جیسا کہ آج تک بھی ان کا یہ شک دور نہیں ہوسکا کہ اگر مصلوب مسیح تھا تو ہمارا مخبر کہاں گیا اور اگر مصلوب ہمارا مخبر تھا تو مسیح کہاں گیا اور ہوسکتا ہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں ہوں جیسا کہ ہم نے اختیار کیا ہے اور یہی زیاہ صحیح ہے کیونکہ حضرت مسیح کے اس واقعہ نے سب کو شک میں مبتلا کر رکھا ہے کسی کے اس کوئی پختہ بات نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس کوئی صحیح دلیل ہے محض گمان اور اٹکل کی پیروی کر رہے ہیں اور جو قصے ان کے ہاں مشہور چلے آتے ہیں انہی کو سچ سمجھتے ہیں اور انہی پر چلتے ہیں حضرت حق نے پھر ان کے اس بےدلیل دعوے کا رد فرمایا کہ انہوں نے یقینا حضرت عیسیٰ کو قتل نہیں کیا ان کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب یعنی آسمان پر اٹھا لیا اور ایک اور شخص کو ان کا ہم شکل بنادیا اور وہ قتل کردیا گیا اور اسی وجہ سے اہل کتاب میں اختلاف واقع ہوا جو آج تک دور نہیں ہوسکا اسلام جو صحیح بات لے کر آیا اور جس کے دامن میں صحیح واقعات مسیح ابن مریم کے پنہاں تھے اس کے ماننے سے ان بدبختوں نے انکار کردیا اور گمراہی کو اختیار کیا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے عزیز اور حکیم ہے اس لئے اس کی حکمت نے جو چاہا اس کی قوت و طاقت نے اس کو پورا کردیا اور مخالف منہ تکتے رہ گئے اور ایسے گڑھے میں گرے کہ اس سے نکلنا نصیب نہ ہوا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہود کہتے ہیں کہ ہم نے مارا عیسیٰ کو اور مسیح اور رسول خدا نہیں کہتے یہ الہل نے ان کی خطا ذکر فرمائی اور فرمایا کہ اس کو ہرگز نہیں مارا۔ حق تعالیٰ نے اس کی ایک صورت ان کو بنادی اس صورت کو سولی پر چڑھایا پھر فرمایا کہ نصاریٰ بھی اول سے یہی کہتے ہیں کہ مسیح کو مارا نہیں وہ زندہ ہے لیکن تحقیق نہیں سمجھتے کئی باتیں کہتے ہیں بعضے کہتے ہیں کہ بدن کو مارا ان کی روح اللہ کے پاس چڑھ گئی بعضے کہتے ہیں مارا تھا پھر تین روز میں زندہ ہو کر بدن سے چڑھ گئے ہر طرح وہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس کو نہیں مارا سو یہ خبر اللہ کو ہے اس نے بتایا کہ اس کو صورت کو مارا اور ان کے پکڑتے وقت نصاریٰ سرک گئے تھے اور یہود بھی نہ پہنچے تھے اس آن کی خبر نہ ا ن کو نہ ان کو (موضح القرآن) اس آیت میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں کسی نے کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے مخالفوں نے جب بادشاہ وقت کو ان کے قتل پر آمادہ کرلیا اور بادشاہ کی پولیس ان کو تلاش کرنے نکلی تو و ہ جمعہ کا دن تھا چناچہ ہفتہ کی شب میں اس مکان کا محاصرہ کرلیا گیا جس مکان میں حضرت عیسیٰ اپنے حواریوں کے ہمراہ تشریف رکھتے تھے اس پر حضرت عیسیٰ نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ تم میں سے کون اس کے لئے تیار ہے کہ اس پر میری صورت کی شبیہ ڈال دی جائے چناچہ ایک نوجوان اس پر تیار ہوگیا حضرت عیسیٰ نے کئی مرتبہ لوگوں سے دریافت کیا اور ہر مرتبہ وہی لڑکا اپنے کو پیش کرتا رہا آخر کار اللہ تعالیٰ نے اسی کی صورت کو حضرت عیسیٰ کے مشابہ کردیا مکان کی چھت میں ایک روزہو گیا حضرت عیسیٰ کو اونگھ آگئی اور حضرت عیسیٰ اسی حالت میں آسمان پر اٹھا لئے گئے اور پولیس نے اس نوجوان کو گرفتار کرلیا اور اس کو ہی عیسیٰ سمجھ کر سولی دے دی گئی ۔ حضرت ابن عباس کی روایت میں اتنا اور زیادہ ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم میں وہ شخص بھی ہے جو بارہ مرتبہ ایمان لانے کے بعد میرا انکار کرے گا اس کے بعد وہی سوال ہے اور نوجوان کا واقعہ ہے پھر بادشاہ کے جاسوسوں کی آمد اور نوجوان کی گرفتاری کا ذکر ہے۔ بعض نے حضرت عیسیٰ کا یہ قول بھی نقل کیا یہ کہ تم میں سے وہ شخص کون ہے جس پر میری شبیہ ڈالی جائے اور وہ میری جگہ قتل کیا جائے اور جنت میں میرا رفیق ہو اس پر وہ نوجوان آمادہ ہوگیا بعض لوگوں کا قول ہے کہ جس قدر حواری اس وقت موجود تھے ان کی تعداد سترہ تھی وہ سب حضرت عیسیٰ کی ہم شکل ہوگئے اس پر پولیس نے ان سے کہا تم پر عیسیٰ نے جادو کردیا ہے جو عیسیٰ ہو وہ اپنے کو پیش کر دے اس پر اس نوجوان نے اپنے کو پیش کردیا۔ وہب کی روایت میں جو کچھ ہے وہ تقریباً وہی ہے جو انجیل میں مذکور ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس منافق نے تیس درہم لے کر حضرت عیسیٰ کا سراغ بتایا تھا وہی منافق حضرت عیسیٰ کا ہم شکل کردیا گیا اور اسی کو پھانسی دی گئی۔ بہرحال ! صورت حال کچھ بھی پیش آئی ہو لیکن اتنی بات بالکل صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مخالفین کے شر سے محفوظ و مصون رکھا اور ان کو دشمنوں سے بچا کر صحیح سالم آسمان پر اسی جسد عنصری کے ساتھ اٹھا لیا جس سے وہ دنیا میں زندہ تھے اور جس کو دشمن سولی پر لٹکا کر ختم کرنا چاہتے تھے ۔ رہا اپنی موت سے ان کے مرنے کا جو فسانہ گھڑا گیا ہے اور اس امر کے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ بچ کر نکل بھاگے یا وہ کچھ زندہ تھے کہ ان کو سولی پر سے اتار لیا اور ان کا علاج کیا گیا اور وہ اچھے ہوگئے اور اپنی والدہ کو لے کر کہیں چلے گئے اور اپنی موت سے مرگئے اور ان کی قبر کشمیر کے کسی علاقہ میں ہے یہ فسانہ محض انگریزی حکومت کی برکات ہیں اور یہ افسانہ اس لئے گھڑا گیا ہے تاکہ حضرت عیسیٰ کی جانب سے مسلمانوں کی توجہ کو ہٹا کر بعض مدعیان مسیح موعود کے دعوئے نبوت کو رونق دی جائے اور دشمنان اسلام کی محفل کو سنوارا جائے چناچہ یہ فتنہ ہندوستان کے شمالی حصہ میں پیدا ہوا اور صد ہا مسلمان اس فتنہ سے گمراہ ہوئے اور آخر خدا کا شکر ہے کہ یہ فتنہ ہندوستان کے شمالی حصہ میں پیدا ہوا اور صدہا مسلمان اس فتنہ سے گمراہ ہوئے اور آخر خدا کا شکر ہے کہ یہ فتنہ اپنی موت آپ ہی مرگیا اور اس مصنوعی نبی کی گدی ایک پیروی کی گدی اور سجادہ نشینی بن کر رہ گئی چناچہ اس پر متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس لئے ہم اس پر مزید عرض کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ الیاس برنی کی تصانیف اس سانپ کے سر کچلنے کے لئے کافی ہیں آگے حضرت عیسیٰ کی تشریف آوری کے متعلق ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top