Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور اے سرپرستو تم اپنے وہ مال جن مالوں کو اللہ تعالیٰ نے تم سب لوگوں کے گزارے کا سبب بنایا ہے بیوقوف اور ناسمجھ یتیموں کے سپرد نہ کرو البتہ ان مالوں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے معقول بات کہتے رہو3
3 اور اے سرپرستو ! تم اپنے وہ مال جن مالوں کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری معیشت اور گندن کا سبب بنایا ہے اور تم سب کے لئے اس کو سرمایہ زندگی کیا ہے ان اموال کو ناسمجھ اور کم عقلوں کے سپرد نہ کرو وہاں ان کو ان اعمال میں سے کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان کو معقول و بھلی بات کہتے رہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ یتیم جو تمہاری زیر نگرانی ہیں اور جن کے مال تمہاری حفاظت میں ہیں اور حفاظت کی غرض سے وہ مال تمہارے سپرد کئے گئے ہیں اور چونکہ یہ مال ایسی چیز ہے کہ تم سب کی زندگی کا سرمایہ اور سہارا ہے اس لئے یتیم جب بالغ ہوجائیں تو ذرا دیکھ بھال کر یہ مال ان کے سپرد کیا کرو ناسمجھ اور کم عقلوں کو نہ پکڑا دیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی کم عقلی کے باعث مال کو برباد کر ڈالیں۔ اور اس کو اڑا ڈالیں۔ ہاں ان پر خرچ کرتے رہو اور ان سے معقول بات کہتے رہو مثلاً یوں کہو کہ یہ مال تمہارا ہی ہے ہم تو محض نگراں ہیں تم ہی کو دیدیں گے۔ تمہاری خیر خواہی اور بھلائی مدنظر ہے اس لئے تم کو ابھی نہیں دیتے۔ جب تم کو خرچ کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ آجائے گا تو تمہارے حوالے کردیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی لڑکا بےعقل ہے اس کا مال اس کے ہاتھ نہ دو اس کا خرچ اس میں چلائو جب بالغ ہو اور عقل پیدا کرلے تب مال حوالے کرو لیکن بات معقول کہو یعنی تسلی کرلو کہ مال تیرا ہے ہمارا نہیں ہم تیری خیر خواہی کرتے ہیں۔ (موضح القرآن) خلاصہ یہ ہے۔ (1) اگرچہ آیت عام ہے اور اسی لئے عبداللہ بن عباس نے تیرے بیٹے اور تیری عورتیں کیا ہے اور عبداللہ بن مسعود ؓ کی بھی یہی رائے ہے کہ ناسمجھ عورتوں اور لڑکوں کو مال حوالے نہ کرو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول ہے کہ سفہا سے مراد خادم ہیں۔ سفیہہ اگر بالغ بھی ہو تو مال اس کے سپرد نہ کیا جائے۔ ابن کثیر نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سفہا کو تصرف سے روکا ہے اس کو شریعت میں حجر کہتے ہیں یعنی کسی کو تصرف علی المال سے روک دینا خواہ یہ روکنا لڑکپن کی وجہ سے ہو یا جنون کی وجہ سے ہو یا کم عقلی کے باعث ہو۔ غرض ان مسائل کی تفصیل دیکھنی ہو تو کتب فقہ میں کتاب الحجر کا مطالعہ کریں۔ یہ شریعت کا ایک مستقل قانون ہے کہ حاکم مال کی حفاظت کرے اور بدسلیقہ لوگوں کی آمدنی اور خرچ پر کنٹرول کرے تاکہ نااہل لوگ دولت کو برباد نہ کریں اور کنگال نہ بن جائیں۔ (2) حضرت سعید بن جبیر اور دیگر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس آیت سے یتامیٰ مراد ہیں نابالغی کی حالت میں تو ان کا مال ان کے حوالے کیا ہی نہیں جاسکتا لیکن اس آیت میں قرآن کریم کا منشا یہ ہے کہ اگر ان میں خریدوفروخت کا سلیقہ نہ ہو اور طبیعت میں لاابالی پن ہو تو بالغ ہوتے ہی ان کے مال ان کے حوالے نہ کردو بلکہ چندے ٹھہرو اور ذرا توقف کرو اور جب ان میں مال رکھنے کی سمجھ آجائے تب ان کے اموال ان کے سپرد کردو۔ ہم نے تیسیر اور ترجمہ میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اور آگے خود قرآن میں اس کی تصریح آتی ہے۔ (3) چونکہ یتامیٰ کے مال ان لوگوں کی نگرانی میں ہوتے ہیں اس مناسبت سے اموالکم فرمادیا ورنہ حقیقت میں وہ مال ان ہی یتیموں کے ہیں اور سرپرست محض اموال کے نگراں ہیں۔ (4) جعل اللہ لکم قیاما میں ایک بہت بڑے مسئلے کی طرف اشارہ فرمایا اور مال کی اہمیت اور اس کی قدر ظاہر کی اور مبذرین و مفسرین کو تنبیہہ فرمائی کہ مال کو تو اللہ تعالیٰ نے سرمایۂ حیات بنایا ہے اور اس کو بیوقوفوں اور کم عقلوں کے ہاتھ دیکر تباہ و برباد نہ کرو بلکہ پیسے کو پیسے کی طرح خرچ کرنی کی جب تمیز آجائے جب ان کے حوالے کرو۔ (5) ہم نے جو سلیقہ اور تمیز کہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو خریدو فروخت اور لین دین کا سلیقہ ہی نہ ہو یا سلیقہ ہو مگر بےپروائی سے استعمال نہ کرتاہو۔ (6) حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر یتیم بالغ ہوجائے اور اس میں سفاہت ہو تو اس کے مال کو ولی پچیس سال کی عمر ہونے تک روک سکتا ہے اگر پچیس 52 سال کی عمر ہونے پر بھی اس کی سفاہت و کم عقلی دور نہ ہو تو اس کا مال اس کے حوالے کردیں۔ (7) سفاہت و جنون و پاگل پن میں فرق ہے اگر کوئی مجنوں یا پاگل یا نیم پاگل ہے تو اس کا مال پچیس سال کے بعد بھی اس کے حوالے نہ کیا جائے گا بلکہ جب تک اس کا دماغ صحیح نہ ہوجائے اس کو تصرف کا حق نہ ہوگا۔ اب آگے اسی مسئلہ کی مزید تفصیل مذکور ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top