Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 62
فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ثُمَّ جَآءُوْكَ یَحْلِفُوْنَ١ۖۗ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا
فَكَيْفَ : پھر کیسی اِذَآ : جب اَصَابَتْھُمْ : انہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا : اس کے سبب جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ ثُمَّ : پھر جَآءُوْكَ :وہ آئیں آپ کے پاس يَحْلِفُوْنَ : قسم کھاتے ہوئے بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنْ : کہ اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اِلَّآ : سوائے (صرف) اِحْسَانًا : بھلائی وَّتَوْفِيْقًا : اور موافقت
پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے کہ جب ان پر ان کے ہاتھوں کے سابقہ اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس خدا کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو سوائے بھلائی اور باہمی میل ملاپ کے اور کچھ نہیں تھا2
2 پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے اور ان پر کیسی بنتی ہے جب ان کے ان اعمال اور حرکات کی بدولت جو یہ پہلے کرچکے ہوتے ہیں ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو پھر یہ آپ کی خدمت میں اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں کہ ہم دوسری جگہ گئے تھے تو خدا کی قسم ہمارا سوائے اس کے اور کچھ مقصد نہ تھا کہ آپس میں کوئی بھلائی کی صورت نکل آئے اور باہم موافقت اور میل ملاپ ہوجائے۔ (تیسیر) حضر ت شاہ صاحب فرماتے ہیں مدینے میں ایک یہودی اور ایک منافق کہ ظاہر میں مسلمان تھا جھگڑنے لگے یہودی نے کہا کہ چل محمد کے پاس ﷺ منافق نے کہا کہ چل کعب بن اشرف پاس وہ یہود کا سردار تھا آخر کار حضرت پاس …آئے حضرت نے یہودی کا حق ثابت کیا منافق نے باہر نکل کر کہا کہ چلو عمر کے پاس یہ حضرت کے حکم سے مدینہ میں قضا کرتے تھے منافق نے جانا کہ حمیت اسلام کریں گے جب گئے ان کے آگے یہودی نے کہہ دیا کہ حضرت پاس ہم جا چکے ہیں وہ مجھ کو سچا کرچکے ہیں۔ حضرت عمر نے منافق کی گردن ماری اس کے وارث حضرت کے پاس دعویٰ خون کو آئے اور قسمیں کھانے لگے کہ ہم گئے تھے اس واسطے کہ شاید صلح کروا دیں تب یہ آیتیں نازل ہوئیں اور ان کا نام فاروق فرمایا۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقین کی ان حرکات ناشائستہ کے باعث ان پر کوئی مصیبت نازل ہوجاتی ہے خواہ وہ مصیبت ان کے راز کا افشا ہوجانا ہو یا ان کی خیانت کا کھل جانا ہو یا حضرت عمر کا قتل کردینا ہو یا کوئی اور مصیبت ہو جو منافقوں پر نازل ہوتی رہتی ہے تو پھر یہ آپ کی خدمت میں قسمیں کھا کھا کر صفائی دیتے ہوئے آتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ ہمارا طاغوت کے پاس جانا اور کعب بن اشرف یا ابوبرزہ کاہن کے پاس جانا اس غرض سے نہ تھا کہ ہم ان کو حق پر جانتے تھے یا آپ کے فیصلے کو ناحق سمجھتے تھے بلکہ ان کے پا س جانے کا صرف مقصد یہ تھا کہ وہ باہم فریقین کو کچھ دبا کر باہم فیصلہ کرا دیں اور آپس میں مصالحت کرا دیں کیونکہ حاکم تو صاحب حق سے رعایت کرنے کو نہیں کہہ سکتا اور ہم یہ چاہتے تھے کہ فریقین کی بات رہ جائے اور آپس میں مخالفت نہ پڑے اور باہم میل ملاپ ہوجائے یہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کچھ صاحب حق کو دبایا جائے اور کچھ مدعا علیہ کو اور باہم ایک سمجھوتہ اور راضی نامہ کرا دیا جائے ہم تو اس لئے ان کے پاس گئے تھے اور حاشاد کلا آپ کو ناحق پر سمجھ کر ا ن کے پاس ہرگز نہیں گئے تھے منافقین کے سابقہ اعمال کا مطلب یہ ہے کہ رسول سے پہلو تہی کر کے دوسروں سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں اور مصیبت سے مراد عام ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں صفائی دینے کا مطلب بھی ظاہر ہے۔ حضرت شاہ صاحب کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اعمال سابقہ سے مراد حضرت عمر کے پاس جانا اور مصیبت سے مراد حضرت عمر کا قتل کردینا ہے۔ اس تقریر پر صفائی کا مطلب یہ ہوگا کہ فیصلہ تو حضور ﷺ ہی کا صحیح تھا اور ہم اس کے صحیح ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضرت عمر کے پاس تو ہم صرف اس لئے گئے تھے کہ وہ آپ کے فیصلے کو جو یہودی کے حق میں تھا اس طرح اجراء کردیں کہ یہودی کو کچھ سمجھا بجھا کر اس سے اس کے حق میں کمی کرا دیں اور آپس میں دونوں کو گلے لگا دیں اور باہم میل ملاپ کرا دیں خدانخواستہ ہمارا یہ مطلب نہ تھا کہ ہم آپ کے فیصلے کو غلط سمجھتے تھے۔ غرض ! شان نزول کی کوئی روایت اختیار کی جائے ہر روایت کی بنا پر آیت کی تفسیر ہوسکتی ہے۔ (واللہ اعلم) آگے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اس بیان اور اس توجیہہ کی جو انہوں نے قسمیں کھا کر کی تھیں اس کی تکذیب اور تغلیط کرتا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top