Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 70
ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ عَلِیْمًا۠   ۧ
ذٰلِكَ : یہ الْفَضْلُ : فضل مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا
یہ معیت ورفاقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے بڑی بزرگی ہے اور اللہ تعالیٰ کا واقف ہونا کافی ہے۔3
3 اور جب یہ ایسا کرتے تو اس وقت ہم آخرت میں اپنی خاص رحمت سے ان کو بہت بڑا اجر عطا کرتے اور یقینا ہم صحیح راستے پر ان کو چلاتے اور ان کو سیدھا راستہ بتا دیتے جو جنت اور جناب قدس تک پہنچتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اور اللہ و رسول کا حکم مانے گا تو یہ لوگ جنت میں ان حضرات کے ہمراہ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل اور کامل انعام فرمایا یہ حضرات انعم اللہ علیہم انبیاء ہیں اور صدیقین ہیں اور شہدا ہیں اور صلحاء یعنی نیک لوگ ہیں اور یہ حضرات مذکورہ جس کے رفیق ہوں تو بہت اچھے اور بڑے خوب رفیق ہیں، یہ ان حضرات کی معیت ورفاقت کا میسرآجانا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک خاص فضل ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کے احوال کو جاننے والا اور خبر رکھنے والا کافی ہے۔ (تیسیر) اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ ولانا کتبنا علیھم میں عام لوگ مراد لئے جائیں تو زیادہ مناسب ہے اگرچہ ہم نے دونوں باتوں کی رعایت رکھی ہے، ترجمہ میں علیہم کا ترجمہ منافق کیا ہے اور تیسیر میں لوگوں کیا ہے اور یہ ہم نے محض مفسرین کے دونوں اقوال کی رعایت سے کیا ہے اگر علیہم کا مرجع منافقین ہوں تب تو وہی شرح ہوگی جو حضرت شاہ صاحب نے فرمائی ہے اور الا قلیل منھم کا مطلب یہ ہوگا کہ ان میں سے بہت تھوڑے لوگ مسلمان ہو کر ان احکام کی پابندی کرتے اور اگر علیہم کا مرجع عام لوگ ہوں۔ جیسا کہ ہم نے تیسیر میں اختیار کیا ہے تو مطلب اس طرح ہوگا اگر ہم لوگوں پر اس قسم کے احکام فرض کردیتے تو سوائے چند مومنین کاملین کے اور کوئی ان میں سے ان احکام کی تعمیل نہ کرتا اس صورت میں یہ ایک درمیانی جملہ ہوگا۔ بہرحال ! ولوانھم کا مرجع بالاتفاق منافقین ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اگر یہ منافقین ان باتوں کی پابندی کرتے جن کی ان کو نصیحت کی جا رہی ہے اور اس پر عمل کرتے عمل کی برکت سے ان کو بہتری اور تثبیت قلب میسر ہوجاتی جو کامل اطاعت کا ثمر ہ ہے تو ہم ان کو علاوہ ان کے اعمال کے خاص اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتے اور سیدھی راہ پر ان کو چلاتے اور جنت میں ان کو پہنچا دیتے اور جنت میں پہنچانے کے لئے ان کی رہنمائی کرتے۔ خلاصہ یہ کہ کامل اطاعت و فرمانبرداری کی برکت سے دنیا میں خیر و تثبیت حاصل ہوتی اور آخرت میں ان کو اپنے فضل خاص سے نوازا جاتا اور ان کو جنت میں داخل کیا جاتا۔ ان منافقین کی اصلاح کا طریقہ اور ان کے نفاق کا علاج بیان فرمانے کے بعد عام مسلمانوں کو عمل صالح اور اللہ و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کی ترغیب فرمائی اور یہ بتایا کہ اگر کسی کو کمال اطاعت میسر نہ بھی ہو لیکن احکام ضروریہ کی بجا آور ی میں کوتاہی نہ کرتا ہو اور لالہ و رسول کی اطاعت بجا لاتا ہو تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے یہ مرتبہ عنایت فرمائیں گے کہ بڑے لوگوں کی اس کو مغیت ورفاقت میسر ہوجائے گی اور یہ بڑے لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام کیا ہے، انبیاء اور صدیق اور شہداء اور صلحاء ہیں اور یہی وہ حضرات ہیں جن کو سورة فاتحہ میں صراط الذین انعمت علیھم فرمایا تھا اگرچہ صدیق اور صالح نبی سے عام ہے لیکن جب ابنیاء کا ذکر بھی آگیا تو معلوم ہوا صدیقین اور صالحین سے مراد غیر انبیاء ہیں یعنی نبی اور وہ لوگ جو نبی تو نہیں ہیں مگر صدیق ہیں شہد ہں یا صالح اور نیک فطرت لوگ ہیں ان کی معیت ورفاقت ان اہل طاعت کی میسر ہوگی جو ان سے کم درجے کے ہوں گے اور چونکہ ان کے اعمال ان لوگوں کے ہم پلہ نہ ہوں گے ورنہ یہ بھی ان چاروں قسموں میں سے کسی قسم میں داخل ہوجاتے۔ اس لئے فرمایا ذلک و الفضل من اللہ کہ اگرچہ ان کے اعمال انعم اللہ علیہم جیسے نہ ہوں گے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل خاص اور اپنی مہربانی سے ان بزرگوں کی معیت ورفاقت نصیب کر دے گا اور یہ لوگ با اعتبار رفاقت و معیت بڑے اچھے لوگ ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں نبی وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آوے یعنی فرشتہ ظاہر میں پیغام کہہ جاوے اور صدیق وہ کہ جو وحی میں آوے ان کا جی آپ ہی اس پر گواہی دے اور شہید وہ جن کو پیغمبر کے حکم پر ایسا صدق آیا کہ اس پر جان دیتے ہیں اور نیک بخت وہ جن کی طبیعت نیکی ہی پر پیدا ہوئی ہے تو جو لوگ ایسے نہیں لیکن حکم برداری میں لگ جاتے ہیں اللہ ان کو بھی ان کے ساتھ گنے گا۔ (موضح القرآن) ابن ابی حاتم نے مسروق سے مرسلاً روایت کی ہے کہ اصحاب رسول اللہ ﷺ نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم کو آپ کی جدائی بن نہیں آتی لیکن جب آپ کی وفات ہوجائے گی تو آپ کسی اور مقام پر ہوں گے اور ہم کسی اور مقام پر ہوں گے تو جنت میں ہمارے اور آپ کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔ سعید بن جبیر کی روایت میں ہے کہ ایک انصاری حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ کچھ غمگین تھا حضور ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تو غمگین کیوں ہے اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے ایک ہی غم کھائے جاتا ہے یہاں ہم آپ کی خدمت میں آتے ہیں آپ کی صورت دیکھتے ہیں آپ کے پاس بیٹھتے ہیں آپ کل انبیاء (علیہم السلام) کے ہمراہ ہوں گے اور ہم آپ کے دیدار سے محروم ہوجائیں گے مجھ کو یہ غم مارے ڈالتا ہے۔ اسی قسم کے اور بہت سے واقعات ہیں جو کتب احادیث میں مفصلاً مذکور ہیں اسی میں ربیعہ بن کعب کا واقعہ ہے حضرت ثوبان کا واقعہ اور بات یہ ہے کہ ایسا کون سا مسلمان ہوگا جس کی یہ تمنا نہ ہوگی کہ اس کو ان لوگوں کی رفاقت میسر نہ ہو، لہٰذا بہ کثرت لوگوں نے اس قسم کی آرزو کا اظہار کیا ہوگا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس آیت کے نزول سے مسلمانوں میں ایک خاص قسم کی مسرت کا اظہار کیا گیا اسی سلسلے میں وہ مشوہر روایت بھی ہے جس کو ابن کثیر نے روایت کیا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ ایک شخص ایک قوم کو دوست رکھتا ہے مگر اس قوم کے مانند اس کے اعمال نہیں ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا المرمع من احب یعنی آدمی جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ہمراہ ہوگا۔ آیت میں جس معیت کا اظہار کیا گیا ہے اس سے مراد ان درجات کا حصول نہیں ہے جو انعم اللہ علیہم کو حاصل ہوں گے ورنہ فاضل اور مفضول میں مساوات لازم آجائے گی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑے لوگ اپنے مقامات سے اتر کر ان کے پاس آیا کریں گے اور جنت کے باغوں میں ان کے پاس بیٹھیں گے جیسا کہ ابن جریر نے نقل کیا ہے کہ اس آیت کو سن کر رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ اوپر والے اور بلند مرتبہ والے لوگ نیچے والوں کے پاس آیا کریں گے اور جنت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر کیا کریں گے اور اس کی تعریف کریں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیچے والوں کو ان کی خدمت میں حاضر ہونے ان کے پاس بیٹھنے اور ان کی زیارت سے مشرہونے کی اجازت ہو۔ (واللہ اعلم) بہرحال ! صورت وہاں جو کچھ بھی ہو جن لوگوں کو جدائی اور ترک رفاقت کا خطرہ تھا ان کا خطرہ اس آیت نے دور کردیا اور یہ بات معلوم ہوگئی کہ جو لوگ اللہ اور رسول کی پوری پوری اطاعت نہیں کرتے مگر اطاعت و فرماں برداری کی دھن میں لگے رہتے ہیں اور نیک بندوں سے محبت رکھتے ہیں وہ بھی نیک لوگوں کی رفاقت سے محروم نہ رہیں گے گو اس مرتبہ کے نہ ہوں۔ و کفی باللہ علیما کا یہ مطلب ہے کہ کون اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے اور کون کسی سے سچی اور واقعی محبت کرتا ہے اور کون کسی کے نقش قدم پر چلتا یا چلنے کی کوشش کرتا ہے اس بات کا جاننے والا اللہ تعالیٰ کافی اور بس ہے اس کو سب کی حالت کا علم ہے اور وہ با اعتبار علیم ہونے کے کافی ہے یہاں تک مختلف لوگوں کا اور مختلف اعمال کا بیان تھا۔ اب آگے اعمال کے سلسلے میں جہاد کا بیان ہوتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب علیما پر حاشیہ لکھتے ہیں آگے سے ذکر ہے جہاد کا (موضح القرآن) (تسہیل)
Top