Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 73
وَ لَئِنْ اَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰهِ لَیَقُوْلَنَّ كَاَنْ لَّمْ تَكُنْۢ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهٗ مَوَدَّةٌ یّٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ مَعَهُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا
وَلَئِنْ : اور اگر اَصَابَكُمْ : تمہیں پہنچے فَضْلٌ : کوئی فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے لَيَقُوْلَنَّ : تو ضرور کہے گا كَاَنْ : گویا لَّمْ تَكُنْ : نہ تھی بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهٗ : اور اس کے درمیان مَوَدَّةٌ : کوئی دوستی يّٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں كُنْتُ : میں ہوتا مَعَھُمْ : ان کے ساتھ فَاَفُوْزَ : تو مراد پاتا فَوْزًا : مراد عَظِيْمًا : بڑی
اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر کوئی فضل ہوگیا تو اس طور پر جیسے تم میں اور اس میں کوئی دوستانہ تعلق ہی نہ تھا یوں کہتا ہے اے کاش میں بھی ان مجاہدین کے ہمراہ ہوتا تو میں بھی بڑی کامیابی حاصل کرتا ۔3
3 اور اگر اے مسلمانو ! تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے تم پر کوئی انعام ہوگیا یعنی فتح ہوگئی اور غنیمت مل گئی تو یہ خود غرض منافق اس طور پر کہ گویا تم میں اور اس میں کوئی دوستانہ تعلق ہی نہ تھا یوں کہتا ہے اے کاش ! یعنی کیا اچھا ہوتا کہ میں بھی ان مجاہدین کے ہمراہ ہوتا اور ان کے شریک حال رہتا تو مجھ کو بھی بڑی کامیابی حاصل ہوتی اور میں بھی بڑا کامیاب ہوتا۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب تم کو خدا کا فضل پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم کو فتح و غنیمت عطا کرتا ہے تو یہی جہاد سے بیٹھ رہنے والا اور جہاد میں جانے سے تاخیر کرنے والا حسرت سے کہتا ہے اور کہتا بھی اس طور پر ہے کہ گویا تم میں اور سا میں بالکل کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور کوئی دوستی ہی نہیں ہے۔ اے کاش ! میں بھی ان لوگوں کے ہمراہ ہوتا تو میں بھی بڑا کامیاب ہوتا۔ یعنی مجھے بھی خوب مال ملتا۔ غرض ! مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں بجائے اس کے کہ مسلمانوں کی کامیابی پر خوش ہوتا اور اس خبر پر مسرت ہوتی اپنے مال نہ ملنے پر افسوس کرتا ہے اور اس سے بڑھ کر خود غرضی اور اجنبیت اور بیگانگت کیا ہوسکتی ہے۔ مودۃ تو منافقوں کے قلوب میں ہوتی ہی نہ تھی اس لئے محض تہکماً فرمایا یا یہ مطلب ہے کہ ظاہری طور پر جس مودت کا اظہار کیا کرتا تھا اس کا بھی اس موقعہ پر خیال نہیں کرتا اور ایسی باتیں کرتا ہے جیسے تم میں اور اس میں کوئی تعلق نہیں ہے بعض لوگوں نے کان لم تکن کو شھیدا کے متعلق کہا ہے۔ (واللہ اعلم) اس آیت میں شکست کو مصیبت فرمایا، یہ ظاہری اعتبار سے عام لوگوں کے خیال کے مطابق فرمایا ہے۔ ورنہ مسلمانوں کی شکست بھی اپنے دامن میں ہزارہا خوبیاں اور بھلائیاں رکھتی ہیں۔ حضر ت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ایسا شخص منافق ہے کہ خدا کے حکم پر نہیں دوڑتا بلکہ نفع دینا تکتا ہے۔ اگر لوگوں کو اس کام میں تکلیف پہنچی تو اپنے الگ رہنے پر ریجھتا ہے اور اگر لوگوں کو فائدہ پہنچا تو پچتاتا ہے اور دشمنوں کی طرح حسد کرتا ہے۔ (موضح القرآن) حسد یہی کہ ہائے مسلمانوں کو مل گیا اور میں خالی ہاتھ رہ گیا اب آگے پھر جہاد کی ترغیب ہے۔ (تسہیل)
Top