Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 82
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ؕ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ : پھر کیا وہ غور نہیں کرتے الْقُرْاٰنَ : قرآن وَلَوْ كَانَ : اور اگر ہوتا مِنْ : سے عِنْدِ : پاس غَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَوَجَدُوْا : ضرور پاتے فِيْهِ : اس میں اخْتِلَافًا : اختلاف كَثِيْرًا : بہت
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی جانب سے ہوتا تو اس میں یہ لوگ بہت تفاوت پاتے1
1 کیا یہ لوگ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کے اعجاز میں غور اور تدبر سے کام نہیں لیتے اور اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی جانب سے ہوتا اور خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں یہ لوگ بکثرت تفاوت پاتے جیسا کہ عام طور سے دوسرے کے کلام میں ہوا کرتا ہے۔ (تیسیر) حضر ت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی مخلوق ہر حال میں اس حال کے موافق بولتا ہے غصے میں مہربانی والوں کی طرف دھیان نہیں رہتا اور مہربانی میں غصے والوں کی طرف دنیا کے بیان میں آخرت یاد نہ آوے اور آخرت کے بیان میں دنیا بےپروائی میں عنایت کا ذکر نہیں اور عنایت میں بےپروائی کا تو اس حال کا کلام سنے دوسرے حال سے مخالف نظر آوے اور قرآن شریف جو خالق کا کلام ہے یہاں ہر بیان میں دوسری جانب بھی نظر ہوتی ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کا بیان ہر مقام میں ایک راہ پر ہے یہاں منافقوں کا مذکور تھا۔ اس میں بھی ہر بات پر الزام اسی قدر ہے جتنا چاہئے اور جماعت میں سے انہی پر الزام ہے جو لائق الزام ہیں اسی واسطے فرمایا کہ بعضے ان میں سے یوں کرتے ہیں۔ (موضح القرآن) اختلاف کثیرہ کا یہ مطلب ہے کہ ایک ایک مضمون میں اگر اختلاف ہوتا صدہا مضامین تھے ان سب کا اختلاف کثیر اختلاف بن جاتا لیکن یہاں کسی ایک مضمون میں بھی اختلاف نہیں لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بشر کے کلام میں یہ یکسانیت کہاں نہ کسی جگہ فصاحت و بلاغت کی کمی، نہ توحید و تشریک حلال و حرام کے بیان میں کہیں تناقض اور تفاوت پھر غیب کی اطلاعات میں نہ کوئی خبر ایسی جو واقع کے مطابق نہ ہو، نہ نظم قرآنی میں کہیں یہ فرق کہ بعض فصیح ہو اور بعض رکیک ہر بشر کی تقریر و تحریر میں ماحول کا اثر ہوتا ہے اطمینان کا اور انداز پریشانی کا اور انداز مسرت کے وقت اور رنگ اور رنج کے وقت اور رنگ، قرآن ہر قسم کے تفاوت اور تناقض سے پاک اور بالاتر ہے اور یہی کلام ہونے کی واضح دلیل ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے وہ بہت صاف ہے اگرچہ اردوپرانی ہے لیکن مطلب واضح اور صاف ہے۔ پھر شاہ صاحب نے ربط کے سلسلے میں بھی ایک بات بہت خوب فرمائی کہ دیکھو منافقین کا ذکر ہی اس موقع پر قرآن کا انضباط ملاحظہ ہو کہ مخالفین کے ذکر میں بھی جو قابل الزام تھے ان کا ہی ذکر کیا سب کو برا نہ کہا اور یہ نہیں فرمایا کہ سب لوگ راتوں کو الٹا مشورہ کرتے ہیں بلکہ طائفۃ کہہ کر ان سرداروں اور بڑے لوگوں کی خیانت کا اظہار فرمایا اور اسی مناسبت سے یہاں قرآن کی حقانیت کا ذکر فرمایا۔ اب آگے اسی قسم کے لوگوں کی بعض اور حرکات کا ذکر ہے جو علاوہ دینی نقصان کے انتظاماً اور سیاستہ بھی نقصان دہ ہیں اور ان کا ذکر کرتے ہوئے اس کا صحیح طریقہ بھی تعلیم فرمایا چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top