Kashf-ur-Rahman - Al-Ghaafir : 33
یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ١ۚ مَا لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ١ۚ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ
يَوْمَ تُوَلُّوْنَ : جس دن۔ تم پھر جاؤگے (بھاگوگے) مُدْبِرِيْنَ ۚ : پیٹھ پھیر کر مَا لَكُمْ : نہیں تمہارے لئے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے مِنْ عَاصِمٍ ۚ : کوئی بچانے والا وَمَنْ : اور جس کو يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اسکے لئے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
جس دن تم پشت پھیر کر بھاگو گے اس دن تم کو کوئی بھی خدا سے بچانے والا نہ ہوگا اور جس گم کردہ راہ کو خدا ہی گمراہ رکھے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔
(33) جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے اس دن تم کو کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے بچانے والا نہ ہوگا اور جس گم کردہ راہ کو اللہ تعالیٰ ہی لے راہ رکھے اس کو کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔ یوم التناد قیامت کا دن ہے اس دن ایک دوسرے کو پکارے گا یا فرشتے پکاریں گے یا اہل دوزخ اہل جنت کو پکاریں گے حساب وکتاب اور نامہ اعمال کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کریں گے لیکن بھاگنے کی کوئی جگہ نہ ہوگی۔ یا یہ مطلب کہ حساب کی جگہ سے پیٹھ پھیر کر عذاب کی طرف چلو گے اس دن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں جو تم کو میدان حشر کی پریشانیوں سے بچا سکے یا عذاب سے بچا سکے اور جو شخص باوجود دلائل کو دیکھنے اور سمجھنے کے پھر بھی گمراہی کو نہیں سمجھتا اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی نہیں فرماتا اور اس کی عدم استعداد اور سرکشی کے باعث گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے یوم التناد سے مراد وہ دن مراد لیا ہے جس دن فرعونی دریا میں غرق ہوئے چناچہ فرماتے ہیں ہانک پکارا کا دن ان پر آیا جس دن غرق ہوئے قلزم میں ایک دوسرے کو پکارنے لگا ڈوبنے میں یہ اس کو کشف سے معلوم ہوا یا قیاس سے کہ ہر قوم پر اسی طرح عذاب آتا ہے۔ اب آگے پھر اسی مرد مومن کا کلام ہے۔
Top