Kashf-ur-Rahman - Al-Hujuraat : 5
وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ صَبَرُوْا : صبر کرتے حَتّٰى : یہاں تک کہ تَخْرُجَ : آپ نکل آتے اِلَيْهِمْ : ان کے پاس لَكَانَ : البتہ ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ ۭ : ان کے لئے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور اگر یہ لوگ ذرا صبر سے کام لیتے یہاں تک کہ آپ خود نکل کر اس کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والا نہایت مہربان ہے ۔
(5) اور اگر یہ لوگ ذرا صبر کرتے اور صبر سے کام لیتے یہاں تک کہ آپ خود حجرے سے نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کے لئے بہترہوتا اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والا بہت مہربان ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں نبی تیمم آئے ملنے کو حضرت گھر میں تھے باہر سے لگے پکارنے چاہیے تھا کہ آدمی کی زبانی خبر کرتے۔ یہ بھی ایک ادب کی بات سکھائی کہ اگر کبھی پیغمبر کی خدمت میں آئو اور پیغمبر کسی ضرورت سے مکان میں تشریف رکھتے ہوں تو آپ کو یا محمد اخرج الیناکہہ کر پکارنا مناسب اور آپ کی شان کے خلاف ہے۔ اطلاع کے اور ذرائع بھی ہوسکتے ہیں یا یہ کہ صبر اور انتظار کرو یہاں تک کہ حضور ﷺ خود ہی باہر تشریف لائیں تو اس وقت ملاقات کرلو۔ کیونکہ جو لوگ عوام سے رابطہ رکھتے ہیں وہ گھر میں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے اکثر اس لئے کہا کہ شاید کچھ لوگوں نے اس کی ابتداء کی ہو اور کچھ نے دیکھا دیکھی یہ حرکت کی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ حضور ﷺ کے قیلو لے کا وقت ہوکیون کہ آپ گھر میں آرام فرماتے تھے اس لئے ان لوگوں کا ہر حجرے پر آواز دیتے پھرنا اور انتظار نہ کرنا خلاف تہذیب اور خلاف ادب قرار دیا گیا۔ آپ خود نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ انتظار کرتے تو یہ بہتر ہوتا کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ حضور ﷺ کو ان کے آنے کی خبر نہ ہوتی لیکن بہرحال جب آپ باہر نکلتے خواہ ان کی ملاقات کے لئے نہیں بلکہ کسی اور کام کو مکان سے باہر تشریف لاتے اور ان کو بیٹھے ہوئے دیکھتے تو ضرور ان سے دریافت کرتے اور ان سے ملاقات کرتے۔ اور یہ ان کے لئے بہتر ہوتا کیونکہ اس میں پیغمبر کی گستاخی اور بےادبی سے محفوظ رہتے۔ بہرحال اگر یہ لوگ توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بڑی مہربانی کرنے والا ہے ان کی غلطیوں کو معاف کردیا جائے ان تمام آیات میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کا ادب تعلیم کیا ہے اور بتایا ہے کہ پیغمبر ﷺ کی جناب میں حاضر ہونے اور بات چیت کا طریقہ کیا ہونا چاہیے اور معصیت میں کیا نقصان پہنچتا ہے۔ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اہل سنت کے نزدیک معصیت حبط عمل کا موجب نہیں ہوتی۔ یہ مذہب تو معتزلہ وغیرہ کا ہے جیسا کہ ہم نہایت وضاحت کے ساتھ پہلے پارے میں آیت بلی من کسب سیئۃ کے تحت عرض کرچکے ہیں اور تسہیل میں تفصیلی بحث ہوچکی ہے۔ یہاں بھی ہم نے تیسیر میں اس طرف اشارہ کردیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی معصیت براہ راست حبط عمل کا سبب نہ بنتی ہو لیکن معصیت سے آئندہ نیکی کی توفیق سلب ہوسکتی ہے اور معاصی موجب الی الخذلان ہوسکتے ہیں اور خذلان منجرال الکفر ہوسکتا ہے اور کفر اختیاری سے تو بالاتفاق عمل کا حبط ہونا لازمی ہے تو رفع صوت بالجہر آہستہ آہستہ تم کو کفر تک پہنچا دے اور تمہارے تمام اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو کہ یہ سزا کون سے جرم کی پاداش میں دی گئی ذرا تامل کرنے سے تیسیر کی یہ بات سمجھ میں آجائے گی، لیکن اشارے کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا اس لئے میں نے صراحتہً عرض کردیا۔
Top