Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 21
یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم ادْخُلُوا : داخل ہو الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ : ارضِ مقدس (اس پاک سرزمین) الَّتِيْ : جو كَتَبَ اللّٰهُ : اللہ نے لکھ دی لَكُمْ : تمہارے لیے وَلَا تَرْتَدُّوْا : اور نہ لوٹو عَلٰٓي : پر اَدْبَارِكُمْ : اپنی پیٹھ فَتَنْقَلِبُوْا : ورنہ تم جا پڑوگے خٰسِرِيْنَ : نقصان میں
اے میری قوم اس مقدس سر زمین میں داخل ہو جائو جو زمین اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں لکھ دی ہے اور پیٹھ دکھا کر واپس مت جائو ورنہ سخت نقصان میں جا پڑو گے۔3
3 اے میری قوم تم اس مقدس سر زمین اور متبرک ملک میں داخل ہو جائو کہ اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں لکھ دیا ہے اور دیکھو پیٹھ پھیر کر واپس مت ہو اور وطن کی طرف مت لوٹو ورنہ یاد رکھو تم سخت خسارے میں جا پڑو گے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں حضرت ابراہیم اپنے باپ کا وطن چھوڑ نکلے اللہ کی راہ میں اور ملک شام میں آ کر ٹھہرے اور مدت تک ان کو اولاد نہ ہوئی تب اللہ تعالیٰ نے ان کو بشارت فرمائی کہ تیری اولاد بہت پھیلائوں گا اور زمین شام ان کو دوں گا اور نبوت اور دین اور کتاب اور سلطنت ان میں رکھوں گا پھر حضرت موسیٰ کے وقت وہ وعدہ پورا کیا بنی اسرائیل کو فرعون کی بیگار سے خلاص کیا اور اس کو غرق کیا اور ان کو فرمایا کہ تم جہاد کو عمالقہ سے ملک شام چھین لو پھر ہمیشہ وہ ملک شام تمہارے ہے۔ حضرت موسیٰ نے بارہ شخص بارہ قبیلہ بنی اسرائیل پر سردار کئے تھے ان کو بھیجا کہ اس ملک کی خبر لا دیں وہ خبر لائے تو ملک شام کی بہت خوبیاں بیان کیں اور وہاں مسلط تھے عمالقہ ان کی قوت و زور بھی بیان کیا۔ حضرت موسیٰ نے ان کو کہا کہ تم قوم کے پاس خوبی ملک بیان کرو اور قوت دشمن مت کہو ان میں دو شخص اس حکم پر رہے اور دس نہ رہے قوم نے سنا تو نامردی کرنے لگے اور چاہا کہ پھرا لئے مصر جاویں ، اس تقصیر سے چالیس برس فتح شام کو دیر لگی اس قدرت مدت جنگلوں میں پھرتے رہے جب اس قرآن کے لوگ مرچکے مگر دو شخص کہ وہی حضرت موسیٰ کے بعد خلیفہ ہوئے ان کے ہاتھ سے فتح ہوئی ۔ (موضح القرآن) ارض مقدس سے پورا ملک شام مراد ہے یا ارض فلسطین مراد ہے اور ہوسکتا ہے کہ طور اور اس کے آس پاس کے علاقے ہوں اور ہوسکتا ہے کہ ایلیا اور بیت المقدس مراد ہوں یا اریحا مراد ہو یا دمشق اور فلسطین اور شرق اردن کا کچھ مراد ہو۔ بہرحال ! ہم نے قتادہ کا قول اختیار کیا ہے اس ملک کو مقدس اور متبرک کہنے کی شاید یہ وجہ کہ یہ ملک ہمیشہ انبیاء علیہم الصلوۃ کا مسکن اور مدفن رہا ہے اور جہاں بیشمار انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مدفون ہوں اس سر زمین کے تقدس میں کیا شک ہوسکتا ہے اور یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اس سر زمین میں گناہگار مسلمان بھی تو مدفون ہوں گے اس کا جواب یہ ہے کہ نیک لوگوں کی وجہ سے جو تقدس حاصل ہوچکا وہ بعد میں گناہگاروں کے دفن سے زائل نہیں ہوتا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ جو فرمایا کہ اس ارض مقدسہ میں داخل ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قوم وہاں مسلط اور قابض ہے ان سے جہاد کرنے کے ارداے سے اس سر زمین میں داخل ہو۔ کتب اللہ لکم کے بھی کئی معنی مفسرین نے کئے ہیں اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم دیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نماز روزے کی طرح تم پر ہی کام فرض کردیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ اگر تم نے اطاعت کی اور ایمان پر قائم رہے تو یہ ملک تم کو مل جائے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہارے حصہ میں یہ ملک لکھ دیا ہے اگر تم اپنی قربانی کے باعث محروم رہو گے تو تم سے بعد کے آنے والوں کو فتح نصیب ہوگی اور ان کے ہاتھ پر اس ملک کو فتح کرا دیا جائے گا۔ ولا ترتد و اعلیٰ ادبارکم کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے کلمہ کی مخالفت نہ کرو اور میری اطاعت سے پیٹھ نہ پھیرو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمالقہ کے مقابلہ میں بزدلی نہ دکھائو اور پیٹھ دکھا کر نہ ھباگو ہم نے آسان مطلب بیان کردیا ہے جو ان کی حالت کے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پیٹھ دیکر اپنے وطن کی طرف واپس نہ جائو اور عام طور سے ایسا ہوتا ہے کہ انسان جہاد سے گھبرا کر اپنے گھر جانا چاہتا ہے اس لئے ان کی خواہش بھی یہ ہوگی کہ بجائے لڑنے اور ملک فتح کرنے کے مصر واپس چلو اور یہ جو فرمایا کہ اگر تم واپس ہوئے تو سخت خسارے میں پڑ جائو گے اور نقصان اٹھا کر لوٹو گے اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیوی اعتبار سے بھی نقصان میں رہو گے کیونکہ ملک قبضے میں نہ آئے گا اور دینی اعتبار سے بھی نقصان اٹھائو گے کہ فریضہ جہاد کے ترک کا گناہ ہوگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر کا خلاصہ یہ ہے اسے میری قوم ! جہاد کرنے کی نیت سے اس مقدس و متبرک سر زمین میں داخل ہو جائو اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو تمہارے لئے مقدر کردیا ہے اور تمہارے حصہ میں لکھ دیا ہے اور دیکھو اپنے وطن کی طرف واپس نہ جائو اگر تم نے ایسا کیا یعنی گھروں کو لوٹے تو بڑے زیاں کار ہو کر لوٹو گے اور نہ دین کے رہو گے نہ دنیا کے اب آگے قوم کا جواب مذکور ہے۔ (تسہیل)
Top