Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 37
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْهَا١٘ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ
يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہیں گے اَنْ : کہ يَّخْرُجُوْا : وہ نکل جائیں مِنَ : سے النَّارِ : آگ وَمَا : حالانکہ نہیں هُمْ : وہ بِخٰرِجِيْنَ : نکلنے والے مِنْهَا : اس سے وَلَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّقِيْمٌ : ہمیشہ رہنے والا
وہ کافر اس امر کی خواہش کریں گے کہ آگ سے نکل جائیں حالانکہ ان کو اس آگ سے کبھی نکلنا نصیب نہیں ہوگا اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے ۔2
2 بلاشبہ جو لوگ کافر ہیں اور اپنے کفر پر قائم ہیں فرض کرو اگر ان میں سے ہر ایک کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور دنیا بھر کی تمام چیزیں ان کے پاس موجود ہوں اور دنیا کی تمام چیزوں اور مال و متاع ہی پر کیا موقوف ہے بلکہ دنیا کی تمام چیزوں کے ساتھ اتنی ہی چیزیں اور بھی ہوں اور یہ سب سامان اس لئے ہو کہ وہ اس کو فدیہ میں دیکر قیامت کے عذاب سے بچ جائیں تب بھی یہ چیزیں اور یہ سب مال و متاع ہرگز ان سے قول نہ کیا جائے گا بلکہ ان کو درد ناک عذاب ہو کر رہے گا عذاب میں ان کی حالت یہ ہوگی کہ وہ اس امر کی خواہش کریں گے اور چاہیں گے کہ وہ آگ سے کسی طرح نکل جائیں حالانکہ ا ن کو اس آگ سے کبھی نکلنا نصیب نہ ہوگا او وہ اس آگ سے کبھی نہ نکلیں گے اور ان کو ایسا عذاب ہوگا جو دائمی اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مرتے دم تک کفر ہی پر قائم رہتے ہیں اور ان کا خاتمہ کفر ہی پر ہوتا ہے ایسے لوگ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہیں گے اگر بالفرض اس قسم کے کافروں کے پاس تمام روئے زمین کا مال و متاع ہو اور تمام حزائن اور دفینے ہوں اور ان اموال و خزائن کے ساتھ اور بھی اسی قدر اموال و خزائن ہوں اور ان کافروں میں سے ہر ایک کافر یہ چاہے کہ یہ ساز و سامان قیامت کے عذاب سے بچنے کے لئے اپنی چھڑوائی میں دیدے اور اس قدر چھڑوائی اور فدیہ دے کر عذاب سے چھٹکارا حاصل کرلے تب بھی اس سے مال و دولت قبول نہ کیا جائے گا اور اس کو درد ناک عذاب میں مبتلا رکھا جائے اور اس عذاب میں ان کا حال یہ ہوگا کہ اس سے نکل بھاگنے کی تمنا کریں گے اور یہ خواہش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح جہنم کی آگ سے نکل جائیں لیکن یہ تمنا اور ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکے گی اور وہ اس آگ میں سے نکل نہ سکیں گے اور دائمی عذاب میں مبتلا رہیں گے ۔ اوپر کی آیتوں میں راہزنی اور ڈکیتی کی سزائوں کا ذکر فرمایا تھا پھر ڈکیتی اور جہاد کے فرق کی جانب اشارہ فرمایا اور اعمال صالحہ کی ترغیب اور معاصی سے بچنے کی ہدایت فرمائی اور کفر پر قائم رہنے والوں کا انجام بتایا، اب آگے ان لوگوں کی سزا کا بیان ہے جو چھپ کر کسی کا مال چرا لیتے ہیں اور مال بھی وہ مال جو محفوظ طریقے پر رکھا گیا ہو ڈکیتی کو سرقہ کبریٰ کہا جاتا ہے اور چوری کو سرقہ صغریٰ کہا جاتا ہے چناچہ چور کی سزا کے سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top