Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 63
لَوْ لَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
لَوْ : کیوں لَا يَنْھٰىهُمُ : انہیں منع نہیں کرتے الرَّبّٰنِيُّوْنَ : اللہ والے (درویش) وَالْاَحْبَارُ : اور علما عَنْ : سے قَوْلِهِمُ : ان کے کہنے کے الْاِثْمَ : گناہ وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
ان کے مشائخ اور علماء ان کو گناہ کی بات کہنے اور حرام کا مال کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے جو چشم پوش وہ کر رہے ہیں وہ یقینا بہت ہی بری ہے۔2
2 اور جب یہ یہود تمہاری مجلس میں آتے ہیں تویوں کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان لے آئے حالانکہ یہ کفر ہی کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور کفر ہی لے کر تمہاری مجلس سے نکل جاتے ہیں اور جو نفاق یہ پوشیدہ رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے اور اے پیغمبر آپ ان یہود میں سے اکثر ایسے لوگوں کو ملاحظہ کرتے ہیں جو دوڑ دوڑ کر گناہ اور ظلم و سرکشی اور حرام کے مال کھانے پر گرتے ہیں وہ کام جو یہ کر رہے ہیں یقینا بہت ہی برے ہیں۔ آخر اس کے مشائخ اور ان کے علماء گناہ کی بات کہنے اور حرام کا مال کھانے اور اڑانے سے ان کو کیوں نہیں روکتے۔ یہ اہل علم اور مشائخ جو چشم پوشی اور مداہنت برت رہے ہیں وہ واقعی جو کچھ کر رہے ہیں برا کر رہے ہیں۔ (تیسیر) پہلی آیت میں بعض منافقین یہود کا ذکر ہے کہ یہ جب تمہاری مجالس میں شریک ہوتے ہیں تو اپنے ایمان کا یقین دلاتے ہیں جیسا کہ پہلے پارے میں گذر چکا ہے۔ واذا القوا الذین امنوا قالوا امنا جب مجلس میں تو چاپلوسی کے طور پر کہہ دیا کرتے کہ ہم ایمان لا چکے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے کہ یہ لوگ کفر ہی لے کر آئے اور اسی کفر کو لے کر مجلس سے باہر نکل گئے اور یہ بھی فرمایا کہ جو خفیہ کارروائی یہ لوگ کرتے ہیں اس سب سے اللہ باخبر ہے۔ ہم نے نفاق سے تعبیر کیا ہے تاکہ وہ تمام کارروائیاں جو ایک منافق کرتا رہتا ہے ان سب کو تیسیر شامل ہوجائے آگے دو آیتوں میں یہود کے عوام اور ان کے خواص کی بددیانتی اور حرام خوری کا ذکر فرمایا۔ یعنی اے پیغمبر ! یہ بات تو آپ کے مشاہدے میں ہے کہ یہ گناہ میں مبتلا ہونے میں جلدی کرتے ہیں اور دوڑ کر گناہ میں جا گرتے ہیں اور سرکشی اور ظلم اور حرام خوری میں انجام سے بےپرواہ ہو کر جا گرتے ہیں ہوسکتا ہے کہ اثم سے مراد معاصی اور عدوان سے مراد ظلم اور سمت اور مراد رشوت ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اثم سے مراد توریت کے احکام میں تحریف کرنا اور عدوان سے مراد ان احکام میں اضافہ کرنا ہو۔ بہرحال اوپر کی آیت میں اعتقاد کی خرابی مذکور تھی اور اس آیت میں اعمال کی خرابی مذکور ہے خواہ وہ ان کی کذب بیانی ہو۔ تحریف ہو حقوق اعلباد کا اتلاف ہو، رشوتیں لے کر غلط فتوے دینا اور غلط فیصلے کرنا ہو یا سود کھانا ہو آیت ہر قسم کے اعمال سیہ کی خرابی بیان کرتی ہے یہ تو ان کے عوام کی حالت تھی کہ ان میں نہ اکل حلال اور نہ صدق مقال۔ اب آگے ان کے خواص کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے صوفی اور مشائخ اور علماء کی مداہنت کا یہ حال ہے کہ وہ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں۔ گناہ کو نہ روکنا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جی چرانا یہ بھی نہایت قبیح اور بدترین ہے۔ صاحب معالم نے فرمایا سخت رشوت، سود، غصب، خیانت، چوری، اجرت حرام، بیوع فاسدہ، جوا، دغا فریب سب کو شامل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ان آیتوں میں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں نازل ہوئی ہیں سب سے زیادہ سخت آیت ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ابن ماجہ نے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ جب آدمی دوسروں کو گناہ کرتے دیکھیں اور انہیں نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ اپنا عذاب عام کر دے گا حضرت جریر بن عبداللہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس قوم میں گناہ کئے جاتے ہوں اور لوگ باوجود قدرت کے ان گناہوں کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ نہ روکنے والوں کو بھی مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ ترمذی میں ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم اچھی باتوں کا حکم کرو اور بری باتوں سے منع کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر عذاب بھیج دے گا پھر تم دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہ ہوں گی۔ اوپر کی آیتوں میں یہود کی بد اعتقادی اور ان کے اعمال قبیحہ کا ذکر تھا اب آگے ان کے اور ایک قول قبیح کا ذکر فرماتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top