Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 74
اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ : پس وہ کیوں توبہ نہیں کرتے اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ( آگے) وَيَسْتَغْفِرُوْنَهٗ : اور اس سے بخشش مانگتے وَ : اور اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
کیا پھر بھی یہ لوگ خدا کے سامنے اپنے ان عقائد سے توبہ نہی کرتے اور اس سے بخشش نہیں ماگنتے حالانکہ اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔1
1 بلاشبہ وہ لوگ کفر کے مرتکب ہوئے جنہوں نے یوں کہا کہ اللہ تعالیٰ تو یہی مسیح مریم کے بیٹے ہیں اور مسیح ابن مریم عین خدا ہے حالانکہ مسیح (علیہ السلام) تو خود بنی اسرائیل سے کہہ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے بیشک جو شخص اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں کسی دوسرے کو شریک کرے گا تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دے گا اور اس کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہوگا اور ایسے مشرکوں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ بلاشبہ وہ لوگ بھی کافر ہوچکے جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تین میں کا تیسرا ہے اور تین معبود میں سے ایک وہ بھی ہے حالانکہ بجز ایک معبود برحق کے اور کوئی معبود نہیں ہے اور اگر یہ لوگ ان مشرکانہ اور کافرانہ اقوال سے باز نہ آئیں گے تو یہ سمجھ رکھیں کہ جو لوگ ان میں سے کفر پر قائم رہیں گے ان کا یقینا درد ناک عذاب ہوگا کیا یہ لوگ ان تمام باتوں کو سن کر پھر بھی اپنے عقائد باطلہ سے توبہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع اور اپنے عقائد شرکیہ اور اعمال کفریہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بخشش طلب نہیں کرتے اور معافی خواہ نہیں ہوتے حالانکہ اللہ تعالیٰ بڑی بخشش کرنے والا اور بڑی مہربانی کرنیوالا ہے۔ (تیسیر) ان آیتوں میں نصاریٰ کی مختلف جماعتوں کے عقائد باطلہ کا رد فرمایا ہے بعض فرقے ان میں اس بات کے قائل ہوئے جیسے یعقوبیہ اور ملکانیہ کہ حضرت مریم نے جو بچہ جنا وہی الہ تھا یعنی حضرت عیسیٰ میں اللہ تعالیٰ حلول کر گیا تھا اور حضرت مسیح جن کو کہا جاتا ہے وہ عین خدا ہے اور بعض فرقوں کا عقیدہ یہ تھا جیسے مرقوسیہ اور نسطور یہ کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم یہ بھی دونوں معبود ہیں اور اللہ تعالیٰ کیا لوہیت کے خواص میں اس کے شریک ہیں اور الوہیت تینوں میں مشترک ہے اور جب ان تینوں میں مشترک ہے تو اللہ تعالیٰ ان تینوں میں سے ایک ہے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ نہ الہ ہیں اور نہ الوہیت میں کس طرح ذات باری کے شریک ہیں نہ مستقل الہ ہیں اس عقیدحے کو وما من الہ الا الہ واحد کہہ کر رد فرمایا۔ ہماری اس تقریر سے معیت یعنی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ ہونا اور الوہیت میں شریک ہنے کا فرق سمجھ میں آگیا ہوگا اسی لئے با اعتبار علم اللہ تعالیٰ کی معیت جیسا کہ سورة مجادلہ میں فرمایا۔ مایکون من نجوی ثلاثۃ الاھور ابعھم ولاخمسۃ الاھوساد سھم یعنی کوئی تین آدمی کہیں سرگوشی نہیں کرتے مگر چوتھا ان کا خدا ہوتا ہے اور کہیں پانچ آدمی بیٹھ کر سرگوشی نہیں کرتے مگر چھٹا ان کا خدا ہوتا ہے اسی طرح نبی کریم ﷺ کا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا غار ثور میں یہ فرمانا ما ظنک باثنین اللہ ثالثھا یعنی اے ابوبکر ان دو شخصوں کے متعلق تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہو یہ معیت خداوندی اور چیز ہے اور خواص الوہیت میں شرکت یہ اور چیز ہے پہلا عقیدہ ایمان اور دوسرا کفر ہے عیسائیوں کے بعض فرقے اس اشتراک کی توجیہہ اس طرح کرتے ہیں کہ یہ تینوں اقانیم ہیں، باپ ، بیٹا اور روح القدس یعنی روح حیات اور یہ تینوں مل کر ایک معبود ہیں اور یہ تینوں علیحدہ علیحدہ بھی معبود ہیں جس طرح آفتاب آفتاب کی ٹکیا اور شعاع اور حرارت سب کے مجموعہ کا نام ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی تینوں اقانیم ک مجموعہ کا نام ہے۔ ذات اور کلمہ اور حیات ان تینوں کے مجموعہ کا نام الہ ہے ۔ کلمہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اس طرح مل گیا جس طرح دودھ میں پانی مل جاتا ہے۔ پس باپ الہ اور کلمتہ اللہ یعنی بیٹا الہ اور روح یعنی حیات الہ اور ان تینوں کا مجموعہ الہ نصاریٰ کے ان عقائد باطلہ کا تذکرہ فرمایا درمیان میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول بھی ذکر کیا تاکہ یہ بات معلوم ہو سکے کہ نصاریٰ کا یہ عقیدہ خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم کے بھی خلاف ہے اللہ تعالیٰ حلول سے بھی پاک ہے اور اس سے بھی پاک و بالاتر ہے کہ اس کی الوہیت میں کوئی اس کا شریک نہ ہو۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ لوگ اگر باز نہ آئیں گے اور اپنے اقوال باطلہ پر قائم رہیں گے تو اس کا فرانہ قول کی وجہ سے ان پر درد ناک عذاب واقع ہوگا ۔ پھر تیسری آیت میں ان کو توبہ اور استغفار کی جانب متوجہ فرمایا کیا ان عقائد کفریہ اور شرکیہ پر جمے رہنا کوئی دانشمندی اور سمجھدار ی کی بات ہے ، یا جن عقائد کا باطل ہونا دلیل عقلی اور نقلی سے ظاہر ہے ان سے توبہ کرنا اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنا ضروری ہے۔ انسان کے لئے یہی مناسب ہے کہ کسی بات کی غلطی معلوم ہوجائے تو فوراً اس سے رجوع کرلے۔ اسی لئے فرمایا کیا اب بھی اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہو کر اس سے معافی نہیں چاہتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے اگر یہ ایسا کریں اور سچائی کے ساتھ اس سے معافی چاہیں اور بخشش مانگیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کر دے گا اور ان کو بخشدے گا وہ بڑا بخشنے والا اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں نصاریٰ میں دو قول ہیں بعضے کہتے ہیں اللہ ہی تھا جو صورت مسیح میں آیا بعضے کہتے ہیں تین حصے ہوگیا۔ ایک اللہ رہا اور ایک روح القدس اور ایک مسیح یہ دونوں باتیں صریح کفر ہیں کاملوں سے حق میں یہی کہئے جو آگے فرمایا۔ (موضح القرآن) اب آگے حضرت مسیح اور ان کی والدہ کی صحیح حقیقت بیان فرماتے ہیں ات کہ یہ بات صاف ہوجائے کہ حضرت مسیح اور حضرت مریم نہ تو معبود ہیں اور نہ الوہیت باری تعالیٰ میں کسی حیثیت سے شریک ہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے فرستادے اور صرف اس کے پیغمبر ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top