Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 79
كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ : ایک دوسرے کو نہ روکتے تھے عَنْ : سے مُّنْكَرٍ : برے کام فَعَلُوْهُ : وہ کرتے تھے لَبِئْسَ : البتہ برا ہے مَا كَانُوْا : جو وہ تھے يَفْعَلُوْنَ : کرتے
جس برائی کے وہ مرتکب تھے اس سے آپس میں ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے واقعی ان کا دو طرز عمل ہو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا بہت ہی برا تھا1
1 بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کافرانہ روش اختیار کی تھی وہ لوگ دائود اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے ملعون قرار دیئے گئے یعنی زبور اور انجیل میں ان پر لعنت کی گئی یہ لعنت اس لئے کی گئی کہ وہ نافرمانی کرنے کے عادی تھے اور شریعت الٰہی کی مخالفت کیا کرتے تھے اور اس نافرمانی میں حد سے بہت دور نکل جاتے تھے انہوں نے جو برے کا م اختیار کر رکھے تھے اس سے آپس میں ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے اور اس برے کام سے باز نہ آتے تھے واقعی ان کا یہ فعل جس کے وہ مرتکب تھے بہت برا تھا۔ (تیسیرا) خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اور بد اعمالی کو اپنا شیوہ بنا لیا تھا ان پر زبور اور انجیل میں لعنت کی گئی اور چونکہ یہ دونوں کتابیں حضرت دائود (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کی زبان سے ظاہر ہوئیں اس لئے لعنت کا ظہور بھی انہی کی زبان سے ہوا اس لعنت کا سبب بھی بتادیا کہ آسمانی دین کی مخالفت کے خوگر ہوگئے تھے اور حد سے بہت دور نکل گئے تھے عقائد کی خرابی کو کفر فرمایا پر اس کفر میں بھی بہت سخت تھے اور حد سے بہت تجاوز کر گئے تھے اور جس برے کام کے وہ مرتکب تھے اس سے آپس میں ایک دوسرے کو منع بھی نہیں کرتے تھے اور یہ بات بہت ہی بری تھی جو وہ کر رہے تھے کہ برائی سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ کانوا الایتناھون کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ باز نہ آتے تھے ہم نے تیسیر میں دونوں معنی کردیئے ہیں۔ ذلک بما عصراوکانوایعتدون کا ایک مطلب تو یہی ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے اور بعض مفسرین نے دوسری طرح کیا ہے ینی وہ نافرمانتھیا ور حدود شرعیہ سے تجاوز کر گئے تھے ۔ (واللہ اعلم) اب آگے پھر ان یہود کی مشرکین سے دوستی کا ذکر فرمایا تاکہ ان کی مخالفت مزید واضح ہوجائے اور ان کی نافرمانی اور ان کے اعتدا پر دلیل ہو سکے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top