Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 81
وَ لَوْ كَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ النَّبِیِّ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰكِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر كَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالنَّبِيِّ : اور رسول وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْهِ : اس کی طرف مَا : نہ اتَّخَذُوْهُمْ : انہیں بناتے اَوْلِيَآءَ : دوست وَلٰكِنَّ : اور لیکن كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور اگر یہ لوگ اللہ پر اور نبی پر اور جو کتاب نبی کی طرف بھیجی گئی ہے اس پر ایمان رکھتے تو ان مشرکوں کو کبھی دوست نہ بناتے لیکن ان میں سے اکثر لوگ خارج از ایمان ہیں2
2 اے پیغمبر آپ ان یہود میں سے اکثر لوگوں کو ملاحظہ فرمائیں گے کہ وہ منکرین یعنی مشرکین سے مسلمانوں کے خلاف دوستی کرتے ہیں البتہ یہ چیز جو وہ آگے بھیج رہے ہیں بہت ہی بری ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے ناخوش ہوا اور ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور وہ ہمیشہ آگ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے اور اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر اور پیغمبر پر ایمان رکھتے اور جو کتاب اس پیغمبر پر نازل کی گئی اس پر ایمان رکھتے تو ان مشرکین کو سمجھی دوست نہ بناتے اور مسلمانوں کے خلاف کبھی ان سے مل کر سازش نہ کرتے لیکن ان میں اکثر لوگ ایمان سے خارج اور کافر ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان میں سے جو ولگ اسلام قبول کرچکے ہیں ان کو چھوڑ کر کہ وہ تھوڑے سے ہیں باقی ان کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ مشرکین سے مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں اور مشرکین کی دوستی پر بھروسہ کرتے ہیں ان کی یہ حرکت بہت ہی بری ہے کیونکہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ آگے بھیج رہے ہیں اور وہی ان کے لئے ذخیرہ ہو رہا ہے وہ اور ناشائستہ حرکات اس لئے بری ہیں کہ وہ حرکات ہی اللہ تعالیٰ کے دائمی غصے اور ناراضگی کا سبب ہیں اور جس سے اللہ تعالیٰ دائمی طور پر ناراض ہو جائیتو اس کی دائمی ناراضگی دائمی عذاب کا موجب ہے اور یہ بات بالکل ظاہر ہے۔ آیت کا ہر ایک ٹکڑا مستقل دعویٰ بھی ہے اور پہلے ٹکڑے کی دلیل بھی ہے پھر آگے فرماتے ہیں اور اگر یہ لوگ اللہ پر اور پیغمبر پر اور کتاب پر ایمان رکھتے ہوتے تو مشکین کو کبھی دوست نہ بناتے لیکن ان میں کے اکثر ایمان سے خارج ہیں۔ نبی سے مراد اگر نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ ہیں تو کتاب سے مراد قرآن کریم ہے یعنی اگر یہ مسلمان ہوجاتے تو پھر ان کا یہ شیوا نہ ہوتا اور اگر نبی سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہوں تو پھر کتاب سے مراد توریت ہوگی یعنی اگر یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم پر عمل کرتے ہوتے تب بھی ان کا یہ فرض ہوتا کہ یہ نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کی مدد کرتے اور مشرکین کے مقابلہ میں ان کے معاون ہوتے نہ کہ آخری پیغمبر کے مقابلہ میں مشرکین سے ساز باز کرتے۔ (تسہیل)
Top