Kashf-ur-Rahman - An-Najm : 17
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى
مَا زَاغَ الْبَصَرُ : نہیں کجی کی نگاہ نے وَمَا طَغٰى : اور نہ وہ حد سے بڑھی
پیغمبر کی نگاہ نے نہ کجروی اختیار کی اور نہ اس نے مقصد سے تجاوز کیا ۔
(17) نہ تو پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نگاہ نے کجروی کی اور نہ مقصد کی حد سے تجاوز کیا۔ مطلب یہ ہے کہ صرف یہی نہیں کہ اس نے فرشتے کو اس کے اصلی روپ میں زمین پر دیکھا بلکہ اس نے ساتویں آسمان پر سورة المنتہیٰ کے قریب ہی اس فرشتے کو اس کی اصل شکل میں دیکھا۔ سیدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت ہے منتہیٰ اس بنا پر کہا کہ یہ ایک مرکزی مقام ہے عرش الٰہی سے جو احکام نازل ہوتے ہیں وہ پہلے یہیں پہنچتے ہیں اور وہاں سے ہر چیز فرشتے زمین پر لاتے ہیں۔ اسی طرح زمین والوں کے تمام اعمال پہلے وہاں پہنچتے ہیں اور وہاں سے اوپر لے جائے جاتے ہیں ہر جگہ کے فرشتے علیحدہ علیحدہ ہیں فرشتوں کی جماعتیں وہاں بکثرت جمع رہتی ہیں اور تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں جنت الماویٰ متقیوں کی آرام گاہ ہے پھر فرشتے کے دیکھنے کا وقت بیان فرمایا جب بیری کو ڈھانک رکھا تھا جس نے ڈھانک رکھا تھا وہ وقت کہ حضور ﷺ نے فرشتے کو اصلی شکل میں دیکھا۔ بہرحال معراج میں تو جبرئیل ہر وقت ساتھ ہی تھے سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچ کر آپ نے ان کو اصل شکل میں دیکھ لیا ڈھانک رکھا تھا یعنی انوار الٰہی نے ، یا فرشتے، یا بعضی روایات ڈھانکنے والے اور لپٹنے والے پر وانے تھے یعنی لپٹنے والوں کی شکل پروانوں کی سی معلوم ہوتی تھی۔ نبی کریم ﷺ کی نگاہ نے کسی چیز کو دیکھنے میں نہ تو کجروی کی ۔ یعنی جس چیز کو دیکھنے کا حکم ہوا اس کو خوب دیکھا اور جس کے دیکھنے کا حکم نہ ہوا اس کے دیکھنے میں جلدی نہ کی بلکہ حکم کے بعد دیکھا جو کچھ آپ نے ملاحظہ فرمایا وہ چونکہ عجیب و غریب تھا اس لئے آگے فرمایا۔
Top