Kashf-ur-Rahman - An-Najm : 18
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى
لَقَدْ رَاٰى : البتہ تحقیق اس نے دیکھیں مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ : اپنے رب کی نشانیوں میں سے الْكُبْرٰى : بڑی بڑی
بلاشبہ انہوں نے اپنے رب کی قدرت کے بڑے بڑے عجائبات دیکھے۔
(18) بلا شبہ انہوں نے اپنے پروردگار کی قدرت کے بڑے بڑے عجائبات ملاحظہ فرمائے - عرش کرسی، رفرف اور ملاء اعلیٰ کے تمام فرشتے اور جو باتیں معراج کے بیان میں ذکر کی جاتی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس نے اپنے حبیب اور اپنے معزز مہمان کو کیا کیا دکھایا اور کہاں کہاں کی سیرکرائی۔ اس مختصر میں اول تو ان سب باتوں کی گنجائش نہیں، نیز راز کی باتیں راز ہی میں رہیں تو اچھی ہیں جو باتیں حد ادراک سے آگے ہوں اور جہاں عقل وخرد تھک کر گرجائے ان کا بیان ہو بھی کب سکتا ہے او وہ کسی کی سمجھ میں بھی کیا آسکتی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں دوسری بار جبرئیل کو اپنی صورت پر دیکھا معراج کی رات میں سات آسمان سے اوپر جہاں درخت ہے بیری کا وہ حد ہے نیچے کی اور اوپر کی نیچے کے لوگ اوپر نہیں پہنچتے اور اوپر کے لوگ نیچے نہیں اترتے۔ اس کے بعد بہشت کو دیکھا اس بیری پر چھا رہے پروانے سبزے ایسے خوش رنگ جن کے دیکھے سے دل کھچا جاوے اور نمونے جو دیکھے سو اللہ ہی کو خبر ہے۔ فائدہ : واضح رہے کہ ہم نے ان آیات کی تفسیر مشہور اور راجح قول کی بنا پر کی ہے ورنہ بعض صحابہ ؓ سے تفسیر اور طرح منقول ہے مثلاً فاستوی وھو بالافق الاعلی میں یوں ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) اور نبی کریم ﷺ شب معراج میں دونوں افق اعلیٰ پر کھڑے ہوئے ایسے ہی دلی فتدلی میں نبی کریم ﷺ قریب ہوئے اللہ تعالیٰ کے اور سجدے میں گرپڑے۔ یا قریب ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے انوار اور اس کی رحمت نے بڑھ کر ان اٹھا لیا ایسے ہی فکان قاب قوسین میں قریب خداوندی کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر جو وحی کی دوبارا دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بار بار ملاتی ہوئے وپس آتے تھے اور پھر لوٹ کر تخفیف کراتے تھے جیسا کہ شریک کی روایت میں نمازوں کی تخفیف کے لئے بار بار لوٹنے کا ذکر ہے۔ غرض فاستوی سے لے کر آخر تک سب آیتوں کا تعلق معراج سے ہی بیان کیا گیا ہے اور بجائے جبرئیل کے حضرت حق تعالیٰ کی طرف ضمائر کا مرجع بتایا ہے پھر حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے درمیان اللہ تعالیٰ کی رویت میں اختلاف کا ذکر کیا ہے حالانکہ درحقیقت وہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بعض علماء نے دونوں کے قول جمع کرنے میں توجیہات سے کام لیا ہے بہرحال ہم نے ان تمام عنوانات کو چھوڑ دیا ہے بلکہ قرآن کا نفس مطلب مشہور قول کی بنا پر سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب وعندہ علم الکتاب والیہ المرجع والماب۔ حضرت حق تعالیٰ کی قدرت اور اس کی خالقیت کو بیان کرنے کے بعد اب بتوں کی بےبسی کا اظہار فرماتے ہیں۔
Top