Kashf-ur-Rahman - An-Najm : 2
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ
مَا ضَلَّ : نہیں بھٹکا صَاحِبُكُمْ : ساتھی تمہارا وَمَا غَوٰى : اور نہ وہ بہکا
کہ تمہارے رفیق صحبت یعنی محمد ﷺ نے نہ راہ گم کی اور نہ وہ غلط راہ چلے۔
(2) کہ تمہارے رفیق صحبت اور ساتھی یعنی محمد ﷺ نے نہ راہ گم کی اور نہ وہ راہ سے بہکے اور نہ بےراہ چلے۔ سیاروں کے طلوع اور غروب سے مسافروں کو جہت کا پتہ چلتا ہے اور رات کی تاریکی میں ان سیاروں سے بڑی رہنمائی ہوتی ہے اور چونکہ نبی کریم ﷺ کے ہادی برحق ہونے اور ہر قسم کی گمراہی اور غوایت سے پاک ہونے پر قسم کھائی تھی اس لئے تارے کی قسم کھائی اور اس مناسبت سے قسم کا یہ عنوان قائم کیا۔ عام مفسرین کی رائے یہ ہے کہ نجم سے مراد یہاں تاروں کی جنس ہے کوئی خاص تارا مراد لینا راجح نہیں اگر مفسرین کے بیشمار اقوال ہیں جیسے ثریا، زحل ، زہرہ یا وہ ستارے جو نبی کریم ﷺ کی ولادت کے وقت اترے اور لٹکتے تھے یا وہ نجوم جو رجم شیاطین کے وقت مستعمل ہوتے ہیں بعض نے نجم سے مراد قرآن کی آیتیں اور سورتیں لی ہیں۔ بہرحال قسم کا جواب ہے ماضل صاحبکم وماغوی گمر کردہ را جو راستہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے کھڑا رہ جائے اور غویٰ وہ جو ایک رستے سے بہک کر دوسی بٹیا پر پڑجائے سرکار دوعالم ﷺ سے دونوں باتوں کی نفی فرمائی۔ کفار اکثر دو باتیں کہتے تھے دعویٰ رسالت کے بعد گم کردہ راہ اور راستے سے بھٹک جانے والا عام طور سے کہتے تھے حضرت حق تعالیٰ نے دونوں کی نفی فرمائی کہ نہ یہ گمراہ ہے نہ راستے سے بہکا ہے۔ ھری کا ترجمہ ہم نے مصدر کو قبول کے وزن پر رکھتے ہوئے کیا ہے اور اگر ھوی کو دخول کے وزن پر رکھا جائے تو اس کے معنی طلوع کے ہوں گے بہرحال ہم نے غروب کو اختیار کیا کیونکہ تارے کے غروب کے وقت مسافروں کو راہ اور جہت معلوم کرنے کا زیادہ شوق ہوتا ہے اور وہ اس وقت کا اہتمام بھی زیادہ کرتے ہیں۔ رفیق صحبت اور ساتھی اس لئے فرمایا کہ اس کی تمام زندگی سے تم واقف ہو تمہارے سامنے بڑھا اور پلا ہے اور تم خود بھی اس کی صداقت اور امانت کے معترف ہو۔
Top