Al-Qurtubi - An-Nisaa : 159
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب کھڑے کیے جائیں گے عَلَي : پر النَّارِ : آگ فَقَالُوْا : تو کہیں گے يٰلَيْتَنَا : اے کاش ہم نُرَدُّ وَ : واپس بھیجے جائیں اور لَا نُكَذِّبَ : نہ جھٹلائیں ہم بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّنَا : اپنا رب وَنَكُوْنَ : اور ہوجائیں ہم مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور زمین اور پہاڑ دونوں اٹھا لئے جائیں گے پھر ایک بارگی توڑپھوڑ کر برابر کردئیے جائیں گے
وحملت الارض والجبال عام قرات میم کی تخفیف کے ساتھ ہے یعنی انہیں اپنی جگہوں سے اٹھا لیا جائے گا۔ (2) فدکتا انہیں ریزہ ریزہ کردیا جائے گا دکۃ واحدۃ۔ دکۃ میں نصب ہی جائز ہے کیونکہ فدکتا میں ضمیر مرفوع ہے فراء نے کہا : فدککن نہیں کہا کیونکہ تمام پہاڑوں کو ایک پہاڑ کی طرح بنا دیا گیا اور زمین کو ایک بنا دیا گیا (3) اسی کی مثل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ان السموت والارض کا نتا رتقاً (الانبیائ : 30) یہاں بھی کن نہیں فرمایا یہ دلزلزلہ کی طرح ہوگا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اذا زلزلت الارض زلزالھا۔ (الزلزلہ) ایک قول یہ کیا گیا ہے دکتا کا معنی ہے دونوں کو ایک ہی دفعہ پھیلا دیا جائے گا اسی سے اندک سنام البعیر ہے جب اس کی کہ ان اس کی پشت میں پھیلج ائے۔ سورة الاعراف میں اس بارے میں گفتگو گزر چکی ہے۔ عبدالحمید نے ابن عامر سے یہ قرات نقل کی ہے وحملت الارض والجبال یعنی تشدید کے ساتھ اسے پڑھا ہے کیونکہ فعل دوسرے فعلوں کی طرف متعدی ہے گویا اصل کلام یوں وے رحملت قدرتنا او ملکا من ملائکتنا الارض ولاجبال پھر فعل کو دوسرے فعلوں کی طرف منسوب کیا گیا تو اس کے لئے یہ صیغہ بنایا گیا۔ اگر پہلا مفعول لایا جائے تو فعل کو اس کی طرف منسوب کیا جائے گا۔ گویا فرمایا : وحملت قدرتنا الارض کبھی قلب کے طریقہ پر دوسرے مفعول کے لئے اسے مجہول کا ذکر کرنا بھی جائز ہے تو کہا جائے گا : حملت الارض الملک جس طرح تیرا قول ہے : البس زید الجبۃ اور البست الجبۃ زیدا۔
Top