Kashf-ur-Rahman - Al-Qalam : 16
سَنَسِمُهٗ عَلَى الْخُرْطُوْمِ
سَنَسِمُهٗ : عنقریب ہم داغ دیں گے اس کو۔ داغ لگائیں گے اس کو عَلَي : اوپر الْخُرْطُوْمِ : ناک کے
ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگادیں گے یعنی اسے رسوا کریں گے۔
(16) ہم عنقریب اس کی ناک اور اس کی سونڈھ پر داغ لگادیں گے۔ یعنی اول تو ہر مکذب اس قابل نہیں کہ اس کب بات مان لی جائے اور خاص طور پر ان مکذبین میں سے اگر کوئی شخص ان صفات ذمیمہ کے ساتھ بھی متصف ہو جن کا اوپر ذکر ہوا تو ایسے شخص کا خاص طور پر خیال رکھاجائے اور اس کی اطاعت سے اجتناب کیا جائے جو صفات مذکورہ ہوئیں وہ یہ ہوئیں۔ حلاف بےحد قسمیں کھانے والا اور ہر جائز و ناجائز موقعہ پر خدا کے نام کا استعمال کرنے والا۔ مہین بےقدر اور پست ہمت جو اپنی حرکات شینعہ کی وجہ سے خالق اور مخلوق دونوں کی نظر میں ذلیل و خوار ہے۔ ہماز، طعنہ دینے والا اپنے طعنوں سے لوگوں کی دل آزاری کرتا ہے لوگوں پر اعتراض کرنا لوگوں کے حسب ونسب میں طعن کرنا اس کی عادت ہے۔ مشاء بنمیم لوگوں کی چغل خوری ایک کی دوسرے سے لگائی بجھائی کرتے پھرنا، اور الوگوں میں لڑائی اور جنگ کرانا جو اس لگائی بجھائی کا لازمی نتیجہ ہے۔ مناع للخیر، نیک کام سے روکنے والا جس میں مال کی خیرات کرنے سے روکنا بھی داخل ہے۔ معتد، لوگوں پر ناحق ظلم وتعدی کرنے والا اور حد اعتدال سے گزرجانے والا۔ اثیم، سخت گناہ گار جو ہر بڑے گنا ہ میں مبتلا ہو۔ عتل، سخت طبع، بدخو، متکبر، گردن کش، نخوت شعار۔ زنیم، نطفہ بےتحقیق ولد الزنا، حرام زادہ، اور یہ جو فرمایا ان کان ذامال وبنین۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایسے شخص کا کہنا نہ مانیے اور وہ بھی محض اس غرض سے کہ وہ صاحب مال واولاد ہے اور دنیا کی وجاہت رکھتا ہے اس دنیوی وجاہت کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوناچاہیے اور ایسے بدکردار کا ہرگز کہنا نہ مانیے اس لئے آپ کو اس کی اطاعت سے منع کیا جاتا ہے کہ جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو یہ ازراہ تکبر ناک چڑھا کر کہتا ہے کہ یہ تو پہلے اور گزشتہ لوگوں کی بےسندکہانیاں ہیں۔ بہرحال پہلے عام مکذبین کی اطاعت سے اپنے پیغمبر کو منع کیا اور پھر تخصیص بعد التعمیم کے طور پر مخصوص کافر کی اطاعت سے منع کیا۔ اور فرمایا ہم ایسے بد کردار اور متکبر اور دشمن رسول کی ناک پر داغ لگائیں گے ناک کی بجائے خرطوم کا لفظ بطور تذلیل فرمایا جو عام طور پر ہاتھی اور سور کی سونڈھ کو کہتے ہیں ان دونوں کی سونڈھ یعنی ناک کے نیچے کی طرف رہتی ہے داغ لگانا کنایہ اس کی تذلیل کی طرف ہے یہ تذلیل اور داغ یا تو قیامت میں ہوگا یا جنگ بدر میں ایک انصاری نے اس کافر کی ناک پر تلوار ماری تھی جس سے اس کی ناک زخمی ہوگئی تھی اور وہ زخم آخر تک اچھا نہ ہوا اور اسی میں مرگیا شاید اس واقعہ کی طرف اشارہ ہو۔ یوں تو ہر منکر اور کافر انہی اوصاف سے متصف ہوتا ہے لیکن زنیم کہنے سے عام مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے ولید بن مغیرہ مراد ہے ، مغیرہ نے اٹھارہ سال کے بعد اس امر کا اقرار کیا تھا کہ ولید میرے نطفے سے ہے اور یہ بھی مشہور ہے کہ ولید ان آیتوں کے بعد تلوار لے کر اپنی ماں کے پاس پہنچا اور اس نے کہا میں جانتا ہوں کہ محمد ﷺ جھوٹ نہیں بولتا سچ بتائیں کس کے نطفے سے ہوں ورنہ میں تیرا سر اڑا دوں گا اس نے کہا بات تو یہ ہے کہ تیرا باپ عنین تھا مجھ کو اس سے اولاد کی امید نہ تھی میں نے خیال کیا کہ مغیرہ کی تمام دولت چچا کے لڑکے لے لیں گے اس لئے میں نے فلاں فلاح غلام سے مل کر تجھ کو حاصل کیا یہ حقیقت تیری پیدائش کی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سب کافر کی وصف ہیں آدمی اپنے اندر دیکھے اور یہ خصلتیں چھوڑے۔ بدنام یعنی بدی کر مشہور۔ ذامال وبنین یعنی دنیا میں طالع مند ہے۔ کہتے ہیں یہ ولید تھا قریش میں ایک سردار ناک پر داغ شاید دنیا میں پڑا ہو یا آخرت میں پڑے گا جلنے کا۔ ان آیتوں میں نبی کریم ﷺ کو براکہنے والے کی دس برائیاں بیان کیں اسی طرح نبی کریم ﷺ پر ایک دفعہ درود شریف بھیجنے والے پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ آگے حضرت حق تعالیٰ نے باغ والوں کا ایک قصہ بیان فرمایا مکہ والوں کو سنانے کے لئے تاکہ مکہ والے سمجھیں کہ وہ ایک خاص آزمائش میں مبتلا ہیں اگر انہوں نی اس پیغمبر اور اس کی تعلیم سے فائدہ حاصل نہ کیا تو ان کو بھی باغ والوں کی طرح پچتانا پڑے گا۔
Top