Kashf-ur-Rahman - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور یقینا آپ بڑے بلند خلق پر قائم ہیں۔
(4) اور یقینا آپ بڑے بلند اخلاق کے مالک ہیں۔ ہم نے محاورے کا ترجمہ کیا ہے یہ بھی مجنون کہنے والوں کا جواب ہے کہ جس میں خلق بلند ہے اور جو اخلاق عظیم کا مالک ہے اور جس ک وخلق عظیم کا ملکہ حاصل ہے وہ بھلا کہیں مجنون ہوسکتا ہے اور دیوانوں میں جب عقل ہی نہیں ہوتی توخلق کہاں ہوگا۔ نبی کریم ﷺ کے اخلاق سے کب سیرواحدیث لبریز اور بھری ہوئی ہیں حضور ﷺ نے فرمایا بعثت لا تعم مکارم الاخلاق یعنی انبیائے سابقین میں جو اخلاق بزرگیاں اور بڑائیاں تھیں ان سب کی تکمیل اور ان کے اتمام کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ جب آیت خذ العفو وامربالعرف واعرض عن الجاھلین نازل ہوئی تو حضور اکرم ﷺ نے جبرئیل (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ اس کی تفسیر کیا ہے تو جبرئیل (علیہ السلام) نے عرض کیا۔ اوتیت بمکارم الاخلاق ان تصل من قطعک وتعطی من حرمک وتعفوا عمن ظلمک ، یعنی یہ آیت آپ کو اچھے اور بزرگ اخلاق سکھاتی ہے وہ یہ ہیں کہ جو تجھ سے تعلق قطع کرے آپ اس سے میل کیجئے اور اس سے ملئے اور جو آپ کو محروم کرے آپ اس کو عطا کیجئے اور جو آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کردیجئے۔ خود نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ صل من قطعک واعف عمن ظلمک واحسن الی من اساء الیک۔ یعنی جو تجھ سے تعلق کو توڑے تو اس جوڑ۔ جو تجھ پر ظلم کرے تو اس کو معاف کردے، جو تیرے ساتھ برائی کرے تو اس کے ساتھ نیکی اور بھلائی کر۔ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سے کسی نے نبی کریم ﷺ کے اخلاق عظیمہ کے متعلق سوال کیا تھا انہوں نے جواب دیا آپ کا خلق قرآن تھا۔ یعنی قرآن جو اخلاق حسنہ بتائے ہیں اور قرآن نے جو بلندتعلیم دی ہے وہ سب آپس کے اخلاق تھے کیونکہ ہر بات آپ کی شریعت اور طریقت مروت اور عقل کے موافق تھی اور یہی وہ خلق عظیم ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ فرمایا ہے ان کفار مکہ کو یہ نہیں معلوم کہ یہ ایک مجسمہ خلق عظیم کو دیوانہ اور مجنون کہتے ہیں اگرچہ دل ان کے بھی جانتے ہیں لیکن عنقریب اپنی آنکھوں سے بھی اپنے قول کی غلطی دیکھ لیں گے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎ بود ہم بحر مکرمت ہم کان گو ہرش کان خلقہ القرآن وصف خلق کسی کہ قرآن است خلق رانعت اوچہ امکانست
Top