Kashf-ur-Rahman - Al-Qalam : 50
فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
فَاجْتَبٰىهُ : تو چن لیا اس کو رَبُّهٗ : اس کے رب نے فَجَعَلَهٗ : تو بنادیا اس کو مِنَ الصّٰلِحِيْنَ : صالح لوگوں میں سے
پھر اس کے رب نے اس کو نواز دیا اور اس کو نیک لوگوں میں شامل رکھا۔
(50) پھر اس کے رب نے اس کو نواز دیا اور اس کو نیک اور شائستہ لوگوں میں شامل رکھا۔ مچھلی کی مناسبت سے حضرت یونس (علیہ السلام) کو صاحب الحوت فرمایا ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے قوم کی اذیت سے گھبرا کر قوم کے لئے بدعا کی پھر بلا اذن الٰہی عذاب کی تاریخ مقرر کردی پھر بستی سے نکل کر چلے گئے اور آخر مچھلی کے پیٹ میں محبوس کردیئے گئے بعض مفسرین نے ولا تکن کصاحب الحوت پر نہی کو ختم کردیا ہے جیسا کہ وقف لازم سے ظاہر ہے اس تقدیر پر مطلب یہ ہے کہ اے محمد تم جلدبازی میں یونس کی طرح نہ ہوجانا اگر حضرت یونس کا قصہ بطور اتمام چند آیتوں میں بیان کردیا۔ یعنی وہ وقت قابل ذکر ہے جب اس نے پکارا ایسی حالت میں جبکہ وہ غصے اور غم کے مار گھٹ رہا تھا یہ پکارنا مچھلی کے پیٹ میں پکارنا ہوگا اور بعض حضرات نے فرمایا۔ لا یکن حالک کحالہ وقت ندائہ اے لا توجد منک ماوجد منہ من المغاضبۃ والمعاتبۃ۔ اب اذنادی وھو مکظوم کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ غصے میں بھرا ہوا تھا اور اس نے غصے میں آکر اپنی قوم کے عذاب کے لئے پکارا مکظوم کسی کا غصہ میں بھرجانا یاغصے کے مارے دم گھٹنا بہرال ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں اسی فرق کو ظاہر کردیا ہے اور ہم نے جو تقریر اختیار کی ہے وہ مچھلی کے پیٹ میں پکارنے والی تقریر اختیار کی ہے۔ یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) کا پور ا قصہ یہ ہے کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں اس حالت میں تھے کہ مختلف غموم کی وجہ سے وہ گھٹ رہے تھے انہوں نے پکارا اور ان کا پکارنا توبہ اور انابت الی اللہ کے لئے پکارنا تھا چناچہ حبس سے جو نجات طلب کی تھی اور لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین کے الفاظ کے ساتھ پکارا تھا تو ان کی پکار قبول ہوئی۔ چنانچہ حضرت حق تعالیٰ کے فضل سے ان کی دستگیری ہوئی اگر اس کے پروردگار کا فضل دستگیری نہ کرتا تو وہ چٹیل میدان میں مذمت کیا گیا اور الاہنا کھایا ہوا پڑا رہتا۔ پروردگار کے فضل اور فضل الٰہی کی دستگیری کا یہ اثر ہوا کو وہ چٹیل میدان میں محمودبنا کر ڈالا گیا مذموم بناکر نہیں۔ جو کچھ ہم نے عرض کیا اس سے سورة والصافات کی آیت میں اور سو رہ نون کی آیت میں کسی توجیہہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ فنبذنا بالعرآء وھو سقیم اور لنبذ بالعرآء وھو مذموم کا مطلب صاف سمجھ میں آگیا ہوگا اور جن حضرات نے پہلی تقریر کو اختیار کیا ہے وہ بھی صحیح ہے کیونکہ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ حضرت یونس علیہالسلام کی پکار اپنی قوم پر عذاب کے لئے ہو یا مچھلی کے پیٹ میں محبوس ہونے کے وقت ہو آخر میں خلاصہ ایک ہی ہے چٹیل میدان میں غیر مذموم ڈالنے کے بعد جو ان کی عزت افزائی ہوئی اور ان کی قدرومنزلت کو بڑھایا گیا اس کی تفصیل والصافات میں گزر چکی ہے۔ اسی کو یہاں بیان فرمایا۔ باجتبہ ربہ فجعلہ من الصلحین۔ جب حضرت حق تعالیٰ اپنے کسی بندے کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں اور ان کی نظر عنایت اور نظر شفقت کسی کو نواز لیتی ہے تو اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) سے صرف ایک اجتہادی غلطی ہوئی جس کو زیادہ سے زیادہ ترک اولیٰ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن بڑوں کی بڑی شان ہے ایک اجتہادی غلطی کا اثر کتنا وسیع ہوا اور کہاں جاکر ختم ہوا یہ تمام قصہ سنا کر اپنے پیغمبر کو سمجھایا کہ تم کہیں قوم کی ناشائستہ حرکات سے متاثر ہوکر عذاب میں جلدی نہ کر بیٹھنا اور حضرت یونس (علیہ السلام) کو جلد بازی سے جو پریشانی اٹھانی پڑی تھی اس میں مبتلا نہہوجانا بلکہ جب ہم نے بتادیا کہ ہم مہلت دیا کرتے ہیں اور قوموں کو ان کے مقررہ وقت پر پکڑا کرتے ہیں تو آپ صبر سے انتظار کیجئے اور عقوبت و عذاب میں جلدی نہ کیجئے۔ کہتے ہیں آپ شاید کسی قبیلے کے لئے یا جنگ احد میں جو لوگ میدان جنگ سے بھاگ گئے تھے ان کے لئے بددعا کرنا چاہتے تھے اس پر یہ آیتیں نازل فرمائیں اور اسی بنا پر سورة نون کی ان آیتوں کو مدنی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مدینے میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اللہ کا حکم دیکھے تو بددعا کر اور دیری کے سبب جھنجھلا کر نہ کر حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح حضرت نے فرمایا جو کوئی کہے میں یونس (علیہ السلام) سے بہتر ہوں وہ جھوٹا ہے۔ خلاصہ : یہ کہ بعض جاہل واعظ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے مابین مقابلہ کیا کرتے ہیں اور حضرت یونس (علیہ السلام) کی شان کو گرا کر بیان کرتے ہیں اور ان پر میری عظمت ظاہر کرتے ہیں تو یہ لوگ جھوٹے ہیں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سب اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور سب واجب التعظیم ہیں ان میں اس ترح مقابلہ کرنا جس سے کسی دوسرے نبی کی تحقیر یا اس کی شان کا استحقاف ہوا ایسا کرنا غلطی اور گمراہی ہے۔ لانفرق بین احد من رسلہ
Top